خطبہ فدکیہ
کی اہمیت:
خطبہ فدکیہ میں حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کا حکومت وقت کے خلاف احتجاج اور باغ فدک پر قبضہ کرنے والوں اور اہلِ خلافت کی سرزنش کا تذکرہ ہے، خطبہ فدکیہ میں اسلامی معاشرہ میں امامت و ولایت اہل بیت علیہم السلام کو قبول کرنے کے ساتھ ایجادِ وحدت اور تفرقہ و نفاق سے دور رہنے پر تاکید کی گئی ہے، خطبہ فدکیہ میں توحید، معاد، نبوت و بعثت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، عظمت قرآن، فلسفۂ احکام اور ولایت معصومین کا بھی ذکر موجود ہے، اسی طرح اس خطبے میں جو فصاحت و بلاغت اور فن خطابت پائی جاتی ہے، اسی بناپر امام علی علیہ السلام کے خطبے کے ہم پلہ ہونے کو اس خبطے کی اہمیت کے دلائل میں شمار کیا گیا ہے، اسی وجہ سے ابن طیفور نے اپنی کتاب بلاغات النساء میں اس خطبے کو فصیح و بلیغ خطبات میں شمار کیا ہے(۱)
خطبہ فدکیہ
کا پس منظر:
باغ فدک، خیبر کے نزدیک ایک سر سبز علاقہ تھا، جو حجاز کے علاقہ
میں شہر مدینہ سے ایک سو ساٹھ کیلو میٹر دوری پر واقع ہے جس میں پہلے یہودی آباد
تھے، جب مسلمانوں نے خیبر کے قلعے کو فتح کیا، تو اس گاؤں کے باشندوں نے جب خیبر
کا انجام دیکھا تو رسول اللہ سے صلح کرلی اور آدھا گاؤں رسول اللہ کے حوالے کر
دیا، جبکے وہ اپنی زمینوں پر باقی رہیں گے(۲)
پس باغ فدک بغیر کسی خون ریزی کے
صلح کے ساتھ رسول اللہ کے ہاتھ آ گیا، اس لئے قرآنی حکم کے مطابق(۳) رسول اللہ کے لئے مخصوص قرار پایا،
رسول خدا اس باغ سے حاصل ہونے والی آمدنی بنی ہاشم کے غریبوں کو دیا کرتے تھے(۴) اور جب یہ آیت نازل ہوئی:
وَ آتِ ذَا
الــقُـرْبَـیٰ حَـقَّـہُ
اور تم اپنے خاندان کو ان کا حق دو
(۵)
تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
باغ فدک کو حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کو بخش دیا.(۶)
رسول اللہ کی رحلت کے بعد ابوبکر نے
ایک حدیث پیش کی اور یہ دعوی کیا کہ انبیاء اپنے بعد میراث نہیں چھوڑتے،لہذا اس نے
باغ فدک کو جو حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کے اختیار میں تھا، حکومت کی طرف سے
قبضہ کرلیا(۷)
حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا بارہا
فرماتی رہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے باغ فدک انہیں اپنی وفات سے
پہلے عطا کیا تھا، اور بی بی نے اس پر امام علی علیہ السلام اور ام ایمن کو بھی
گواہ کے طور پر پیش کیا، بعض کتابوں میں نقل ہوا ہے کہ حضرت ابوبکر نے باغ فدک کو
ان کا حق تسلیم کرتے ہوئے تائید میں انہیں ایک تحریری نامہ دیا لیکن عمر نے اس
نامے کو پھاڑ دیا، اہل سنت کی بعض کتابوں میں نقل ہوا ہے کہ حضرت ابوبکر نے حضرت
فاطمہ سلام اللہ علیہا کے گواہوں کو قبول نہیں کیا، اور شہادت کے لئے دو مردوں کو
طلب کیا(۸)
جب صدیقہ طاہرہ حضرت فاطمہ سلام
اللہ علیہا نے دیکھا کہ مطالبہ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے، تو آپ اپنی کچھ رشتہ
دار خواتین کے ساتھ مسجد نبوی میں تشریف لے گئیں، ابن طیفور کے مطابق، جس وقت آپ
مسجد نبوی میں تشریف لائیں تو ابوبکر اور مہاجرین و انصار کا ایک گروہ وہاں پہلے
سے موجود تھا، آپ اور مجمع کے درمیان ایک پردہ لگایا گیا، پہلے آپ نے بہت گریہ
کیا، آپ کے ساتھ دوسرے بھی رونے لگے، اس کے بعد آپ کچھ دیر خاموش ہوگئیں تاکہ مجمع
بھی خاموش ہو جائے، اس کے بعد آپ نے اپنی گفتگو کی شروعات کی، کیونکہ آپ نے یہ
خطبہ باغ فدک کے لئے احتجاج کے طور پر ارشاد فرمایا، اس لئے یہ خطبہ، خطبہ فدکیہ
کے نام سے مشہور ہے، البتہ بعض منابع میں چونکے بی بی خطبہ ارشاد فرمانے سے پہلے
اپنی بعض رشتہ دار خواتین کے ساتھ مسجد میں وارد ہوئیں اس لئے اس خطبے کو خطبہ لمۃ
بھی کہا جاتا ہے.(۹)
خطبہ فدکیہ
کی اسناد:
علامہ باقر مجلسی نے خطبہ فدکیہ کو
مشہور ترین خطبوں میں شمار کیا ہے جس خطبے کو شیعہ و اہل سنت نے مختلف سندوں کے
ساتھ نقل کیا ہے(۱۰)
شیخ صدوق رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اپنی کتاب من لا یحضرہ الفقیہ میں اس خطبے کے بعض حصے کو نقل کیا ہے(۱۱)
آیت اللہ منتظری کے نزدیک اس خطبہ
کی قدیم ترین سند کتاب بلاغات النساء مؤلف ابن طیفور ہے (۲۰۴-۲۸۰ھ) ابن طیفور اہل سنت کے عالم دین ہیں، جو زمانہ کے اعتبار سے امام
علی نقی علیہ السلام و امام حسن عسکری علیہ السّلام کے زمانے سے تھے، ابن طیفور نے
اس خطبہ کو دو روایت سے ضبط کیا ہے(۱۲)
البتہ سید جعفر شہیدی کے مطابق
متأخر اسناد میں دونوں روایتیں مخلوط ہوکر ایک ہی صورت میں نقل ہوئی ہیں(۱۳)
اس خطبے کے راویوں میں امام حسن
علیہ السلام، امام حسین علیہ السلام حضرت زینب سلام اللہ علیہا، امام باقر علیہ
السلام، امام صادق علیہ السلام حضرت عایشہ، عبدالله بن عباس وغیرہ شامل ہیں(۱۴)
خطبہ فدکیہ
کی مضامین:
خطبہ فدکیہ حمد و ثنائے الہی سے
شروع ہوتا ہے، اس کے بعد بعثت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر کیا گیا
ہے، اس کے بعد امام علی علیہ السلام کی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے
قربت، اور اولیائے خدا کے درمیان ان کی سرداری، ان کی بے مثال دلیری اور شجاعت کا
بیان ہے، اور رسول اکرم اور اسلام کے دفاع کا ذکر ہے، اس خطبے میں اصحاب رسول کی
سرزنش کی گئی ہے، کہ وہ رسول اللہ کی رحمت کے بعد شیطان کی پیروی کرنے لگے، اور ان
میں منافقت ظاہر ہوگئی، اور انہوں نے حق کو ترک کر دیا، اسی طرح اس خطبے میں غصبِ
خلافت کے واقعے کی طرف بھی اشارہ ہوا ہے، اور ابوبکر کے اس کلام پر کہ انبیاء اپنی
میراث نہیں چھوڑتے، بی بی نے دلائل قرآن مجید کے ساتھ رد کیا ہے، خطبہ فدکیہ میں
حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا نے ابوبکر کے اس مسئلے کو قیامت کے دن خدا کے حوالے
کیا، اور پھر اصحاب کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: کہ کیوں رسول اللہ کے اصحاب اس ظلم
پر خاموش بیٹھے ہیں؟ اور پھر بی بی نے واضح طور پر فرمایا کہ جو ابوبکر اور ان کے
ساتھیوں نے ہمارے ساتھ ظلم کیا ہے وہ خدا تعالیٰ سے اپنے ایمان کے عہد کو توڑنے کے
مترادف ہے، خطبے کے آخر میں حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا نے ابوبکر اور ان کے
ساتھیوں کو ان کے کام کی وجہ سے دوزخ میں جانے کا وعدہ بھی کیا.(۱۵)
خطبہ فدکیہ
کا عربی متن اردو ترجمہ کے ساتھ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
پہلی فصل؛
آغاز گفتگو
حمد و ثنائے
الہی:
اَلـحَـمْـدُللہِ
عَـلیٰ مـا اَنْـعَـمَ، وَ لَـہُ الـشُّـكْـرُ عَلیٰ مـا اَلْـہَـمَ، وَ
الـثَّـنـاءُ بِـمـا قَـدَّمَ، مِـنْ عُـمُـومِ نِـعَـمٍ اِبْـتَـدَاَهـا،
وَسُـبُـوغِ آلاءٍ اَسْداہـا، وَتَـمـامِ مِـنَـنٍ والاہـا، جَـمَّ عَـنِ
الْاِحْـصـاءِ عَـدَدُهـا، وَ نَـأیْ عَـنِ الْجَـزاءِ اَمَـدُهـا، وَ تَـفـاوَتَ
عَـنِ الْاِدْراكِ اَبَـدُہـا، وَ نَـدَبَـہُمْ لاِسْـتِـزادَتِہَـا
بِـالـشُّـكْرِ لاِتِّـصـالِہَا، وَ اسْـتَـحْـمَـدَ اِلَـی الْخَـلائِـقِ
بِـاِجْـزالِہـا، وَ ثَـنّی بِـالنَّـدْبِ اِلـیٰ اَمْـثـالِہـَا.
میں اللہ تعالیٰ كى نعمتوں پر اس كی ستائش کرتی ہوں، اور اس كى
توفیقات پر شكر ادا كرتى ہوں، اس كى لا محدود نعمتوں پر اس كى حمد و ثناء بجالاتى ہوں،
وہ نعمات جن كى كوئی انتہا نہیں اور ان كى تلافى نہیں كی جاسكتی، ان كى انتہا كا
تصور كرنا نا ممکن ہے، اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے چاہتا ہے كہ ہم اس كى نعمتوں کو
پہچانیں اور ان كا شكر ادا كریں، تاكے اللہ تعالىٰ ان جیسی مزید نعمتیں حاصل کرنے
کی ترغیب دلائے
توحید کی
گواہی:
وَ اَشْہَدُ
اَنْ لا اِلہَ اِلاَّ اللہُ وَحْـدَهُ لاشَـریكَ لَہُ، كَـلِمَـۃٌ جَـعَـلَ
الْاِخْـلاصَ تَـأْویلَہـا، وَ ضَـمَّـنَ الْـقُـلُـوبَ مَـوْصُـولَہـا، وَ
اَنـارَ فِـی الفِکَرِ مَـعْـقُولَہـا، الْـمُـمْتَـنِـعُ عَـنِ الْاَبْصارِ
رُؤْیـتُـہُ، وَ مِـنَ الْاَلْـسُـنِ صِـفَـتُـہُ، وَ مِـنَ الْاَوْهـامِ
كَـیـفِیتُـہُ.
اور میں شہادت دیتی ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، اس کا
کوئی شریک نہیں، توحید وہ كلمہ ہے كہ اخلاص كو اس كى روح قرار دیا گیا ہے، اور
مشتاق بندوں کے قلوب اس سے بندھے ہوے ہیں، اور اس کے اثرات ان کے تفکرات میں
جھلکتے ہیں، وہ خدا كہ جس كو آنكھوں كے ذریعے نہیں دیكھا جاسكتا، اور زبان كے
ذریعے اس كی توصیف نہیں كى جاسكتى، وہ کس طرح کا ہے یہ گمان بھی نہیں کیا جا سکتا.
اشیاء کی
خلقت اور تخلیق کا مقصد:
اِبْـتَـدَعَ
الْاَشْـیـاءَ لا مِـنْ شَـیءٍ كانَ مَا قَبْلَہَا، وَ اَنْشَاَہَا بِلاَ
احْتِـذاءِ اَمْـثِـلَـةٍ امْـتَـثَـلَہـا، كَوَّنَہـَا بِـقُـدْرَتِـہِ وَ
ذَرَأَهـا بِـمَـشِـیَّـتِـہِ، مِـنْ غَـیـرِ حاجَۃٍ مِنْہُ اِلٰی تَـكْـویـنِہـا،
وَ لافـائِـدَةٍ لَـہُ فـی تَـصْـویـرِہـا، اِلَّا تَـثْبیتاً لِحِكْمَـتِہِ وَ
تَـنْبیهـاً عَـلی طاعَتِہِ، وَ اِظْهـاراً لِـقُـدْرَتِہِ وَ تَـعَبُّـداً
لِـبَـرِیتِـہِ، وَ اِعْـزازاً لِـدَعْـوَتِـہِ، ثُـمَّ جَـعَـلَ الـثَّـوابَ
عَـلی طاعَتِہِ، وَ وَضَـعَ الْـعِـقابَ عَـلی مَعْصِیتِہِ ذِیـادَةً
لِـعِـبـادِهِ عـن نِـقْـمَتِـہِ وَ حِـیاشَۃً لَہُمْ اِلـی جَـنَّتِـہِ
اس نے موجودات عالم کو خلق کیا، اس سے پہلے کوئی چیز موجود نہیں
تھی، اور ان سب کو بغیر کسی نمونہ یا مثال کے پیدا کیا، اس نے انہیں اپنی قدرت اور
ارادے سے پیدا کیا، اسے موجودات کو تخلیق کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی، اور ناہی
ان کی تشکیل سے کوئی فائدہ لینا چاہتا تھا، سوائے اس کے کہ وہ اس خلقت کے ذریعے
اپنی حکمت کو ثابت کرنا چاہتا تھا، اور لوگوں کو اپنی اطاعت کی طرف دعوت دے، اور
اپنی بے انتہا قدرت کا اس کے ذریعے اظہار کرے، اور بندوں كو عبادت كی طرف رہنمائی
كرے، اور اپنى دعوت کو انبیاء کے ذریعے وسعت اور تکویت بخشے، پھر اس نے اپنى اطاعت
كے لئے جزا کو اور نافرمانى كے لئے سزا کو معین فرمایا، تا كہ بندوں كو اپنے غضب
اور عذاب سے نجات دے اور بہشت كى طرف لے جائے.
رسالت کی
گواہی:
وَ
اَشْـہَــدُ اَنَّ اَبـی مُـحَمَّـدًا عَـبْـدُهُ وَ رَسُـولُـہُ، اِخْـتـارَهُ وَ
انْتَجَبَہُ قَـبْـلَ اَنْ اَرْسَـلَـہُ، وَ سَـمَّـاهُ قَـبْـلَ اَنِ
اجْـتَـبَلَہُ، وَ اصْـطَـفـاهُ قَـبْـلَ اَنْ اِبْـتَـعَـثَـہُ، اِذ
الْـخَلائِـقُ بِالْـغَیـبِ مَكْنُونَـۃٌ، وَ بِـسَـتْـرِ الْاَهـاویـلِ
مَصُونَۃٌ، وَ بِـنِهـایۃِ الْـعَـدَمِ مَقْرُونَۃٌ، عِـلْـمًا مِـنَ اللہِ
تَٓعالیٰ بِـمـائِـلِ الْاُمُـورِ، وَ اِحاطَۃً بِـحَـوادِثِ الـدُّهُـورِ، وَ
مَعْرِفَۃً بِـمَـواقِعِ الْمَقْدُورِ، اِبْتَعَثَہُ اللہُ اِتْـمامًا
لِاَمْـرِهِ، وَ عَزیمَۃً عَـلی اِمْـضـاءِ حُكْمِہِ، وَ اِنْـفـاذاً
لِـمَـقـادیـرِ رَحْمَتِہِ.
میں شہادت دیتى ہوں كہ میرے والد محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
اللہ كے رسول اور اس كے بندے ہیں، اس سے پہلے کہ انہیں پیغمبرى كے لئے بھیجتے اللہ
نے انہیں پہلے سے ہی چن لیا تھا، اور اس سے پہلے کہ انہیں پیدا کرتا ان كا نام
محمّد ركھ دیا تھا، اور بعثت سے پہلے ان كا انتخاب کیا، جبکہ اس وقت مخلوقاتِ جہان
غیب میں چھپى ہوئی تھى، اور عدم كى سرحد سے ملى ہوئی تھی، اور یہ اس لئے ہوا
کیونکہ اللہ تعالى ہر شیٔ كے آئندہ سے باخبر ہے، اور حوادثِ جہاں سے مطلع ہے، اور
ان کے مقدرات سے کامل طور پر باخبر ہے، انہیں مبعوث کیا تاکے اپنے حکم کو تکمیل تک
پہنچائے، اور اپنی حکمت کو جاری کرے، اور حتمی مقدرات کو نافذ کرے.
بعثت سے پہلے
لوگوں کی حالت:
فَـرَاَیِ
الْاُمَـمَ فُرَّقًا فـی اَدْیـانِہـا، عُكَّفاً عَلیٰ نـیـرانِہـا، عـابِـدَةً
لِاَوْثـانِہـا، مُـنْـكِرَۃً للہِ مَـعَ عِرْفـانِـہـا، فَـاَنـارَ اللہُ
بِـمُـحَـمَّـدٍ صَلَّی اللہُ عَلَیہِ و آلہِ ظُلَمَہا، وَ كَـشَـفَ عَـنِ
الْـقُـلُوبِ بُہـمَہـا، وَ جَـلّٰی عَـنِ الْاَبْـصـارِ غُـمَـمَہَا، وَ قـامَ
فِـی الـنَّـاسِ بِالْہِدایۃِ، وَ اَنْـقَـذَهُـمْ مِـنَ الْغِوایۃِ، وَ
بَصَّرَهُمْ مِنَ الْعَمایۃِ، وَ هَداهُمْ اِلَی الدّینِ الْقَویمِ، وَ دَعاهُمْ
اِلَی الطَّریقِ الْمُسْتَقیمِ.
جب رسول اللہ مبعوث ہوے تو امت کو دیکھا کہ مختلف مذاہب کو انتخاب
کیا ہوا تھا، کچھ لوگ آگ کے ارد گرد چکر لگا رہے تھے، اور کچھ لوگ بتوں کے سامنے
اپنا سر جھکا رہے تھے، خدا تعالیٰ کے منکر تھے اس کے ساتھ کہ ان کے قلوب خدا
تعالیٰ کو پہچانتے تھے، پس اللہ تعالی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے
نور مبارك سے ظلمت کی تاریکیوں کو ختم کردیا، اور ظلمت کے پردوں کو دلوں سے دور کر
دیا، اور سرگردانى کے بادلوں کو آنكھوں سے ہٹا دیا، میرے بابا نے لوگوں كى ہدایت
كے لئے قیام کیا، اور انہیں گمراہى جیسی ظلمت سے نجات دلائی، اور نابینا آنکھوں كو
بینا كیا، اور دین محکم كى طرف راہنمائی فرمائی اور صراط مستقیم كى طرف دعوت دی.
رسول اکرم
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت:
ثُـمَّ
قَبَضَہُ اللہُ اِلَیہِ قَـبْـضَ رَأْفَۃٍ وَ اخْتِیارٍ، وَ رَغْبَۃٍ وَ ایـثـارٍ،
فَـمُـحَـمَّـدٌ صَلَّی اللہُ عَلَیہِ و آلہ عَن تَـعَـبِ ہٰـذِهِ الـدَّارِ فـی
راحَۃٍ، قَـدْ حُـفَّ بِـالْمَـلائِـكَـۃِ الْاَبْـرارِ وَ رِضْـوانِ الـرَّبِّ
الْـغَفَّـارِ، وَ مُـجـاوَرَةِ الْـمَلِـكِ الْـجَـبَّـارِ، صَلَّی اللہِ عَـلیٰ
أَبـی نَبِیّہِ وَ اَمینِہِ عَلَی الْوحیِ، وَ صَفِیِّہِ وَ خِیرَتِہِ مِـنَ
الْـخَـلْقِ وَ رَضیِّہِ وَ السَّـلامُ عَـلَیـہِ وَ رَحْمَۃُ اللہِ وَ بَرَكاتُہُ.
اس کے بعد خداوند عالم نے اپنے
پیغمبر كى محبت اور مہربانی کے ساتھ، ان كے اختیار اور رغبت سے ان كى روح قبض
فرمائی، جس کے نتیجے میں اب میرے بابا اس دنیا كى سختیوں اور مصیبتوں سے آرام میں
ہیں، اور اب فرشتوں کے درمیان اور پروردگار غفّار کی خوشنودی کے ساتھ، قرب خداوندی
کے جوار میں زندگی بسر کر رہے ہیں، درود و سلام ہو میرے بابا، خدا کے رسول، امین
وحی اللہ، اور اس کی مخلوقات میں سے برگزیدہ پر، سلام ہو اس پر اور خدا تعالیٰ کی
رحمت نازل ہو.
دوسری فصل:
حاضرین سے خطاب
ثُمَّ
الْتَفَت علیہا السلامُ اِلٰی اَهْلِ الْمَجْلِسِ
پھر آپ علیہا السلام نے اپنا رخ مخاطبین کی طرف کیا
وَ قـالَـتْ:
اَنْــتُــمْ عِــبـادَ اللہِ نُـصْبُ اَمْرِہِ وَ نَهْیِہِ، وَ حَـمَلَۃُ دینِہِ
وَ وَحْیِہِ، وَ اُمَـنـاءُ اللہِ عَلیٰ اَنْـفُـسِكُـمْ، وَ بُـلَـغـاؤُهُ اِلَـی
الْاُمَـمِ، زَعـیـمُ حَـقٍّ لَـہُ فـیـكُمْ، وَ عَہْدٌ قَـدَّمَـہُ اِلَـیكُـمْ،
وَ بَـقِـیۃٌ اسْتَـخْلَـفَہـا عَـلَیكُـمْ: كِـتابُ اللہِ النَّـاطِـقُ وَ
الْـقُـرْآنُ الـصَّـادِقُ، و الـنُّـورُ السَّـاطِـعُ وَالـضِّیـاءُاللاَّمِـعُ،
بَـیِّـنَـۃٌ بَـصـائِرُهُ، مُنْكَشِـفَـۃٌ سَـرائِـرُهُ، مُـنْـجَلِیۃٌ
ظَـواهِـرُهُ، مُـغْتَـبِـطَـۃٌ بِہِ اَشْـیاعُہُ قـائِـدٌ اِلَـی الـرِّضْـوانِ
اِتِّـبـاعُہُ، مُـؤَدٍّ اِلَـی الـنَّـجـاةِ اسْتِـماعُـہُ، بِہِ تُـنـالُ
حُـجَجُ اللہِ الْـمُـنَـوَّرَةُ، وَ عَـزائِمُہُ الْـمُـفَسَّـرَةُ،
وَمَـحارِمُہُ الْـمُحَـذَّرَةُ، وَبَـیِّـناتُہُ الْجالِیـۃُ،وَبَـراهیـنُہُ
الْكافِیۃُ، وَ فَـضائِـلُـہُ الْـمَـنْدُوبَـۃُ، وَ رُخَـصُہُ الْمَـوْهُوبَۃُ،
وَ شَرایعُہُ الْمَكْتُوبَۃُ.
اور فرمایا: اے بندگان خدا! تم خدا کے امر و نھی کے مسئول، اور اس
کے دین اور وحی کے علمبردار ہو، اور تم اپنے نفس پر خدا کے نمائندے، اور قوموں کے
لئے مبلغ ہو، تمہارے درمیان حق الہی کا پاسدار اور خدا کے عہد کا محافظ ہے، جو آپ
سب کے پاس ہے، اور جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے بعد، امت کے
درمیان یادگار کے طور پر چھوڑا ہے، وہ اللہ کی کتاب ہے جو ناطق ہے اور جو قرآن
صادق ہے، ایک ایسا نور جس کی روشنی پھیلی ہوئی ہے، ایک ایسی کتاب جس کے دلائل اور
اس کا باطن واضح ہے، اور اس کا ظاہر و باطن نور سے بھرے ہوے ہیں، اور جس کے
پیروکار پُر افتخار ہیں، ایک ایسی کتاب جو اپنے پیروکاروں کو جنت کی طرف دعوت دیتی
ہے، اور اپنے سننے والوں کو ساحلِ نجات کی طرف لے جاتی ہے، اور اس کتاب کے ذریعے
خدا تعالیٰ کے روشن دلائل کو حاصل کیا جا سکتا ہے، اور اس کتاب میں واجبات و
محرمات کی تفصیل کو پڑھا جا سکتا ہے، اس میں واضح اور روشن دلائل کا جائزہ لیا جا
سکتا ہے، اور اس میں جائز اخلاقی دستورات کو لکھا ہوا دیکھا جا سکتا ہے.
معارف و
احکام کے آثار:
فَـجَـعَـلَ
اللہُ الْایـمـانَ تَـطْہیراً لَـكُـمْ مِـنَ الشِّـرْكِ، وَ الـصَّلاةَ
تَـنْـزیہًا لَـكُـمْ عَـنِ الْـكِبْـرِ، وَ الـزَّكـاةَ تَزْكِـیۃً لِلنَّـفْسِ
وَ نَـمـاءً فِـی الـرِّزْقِ، وَ الـصِّیـامَ تَـثْـبیتـًا لِـلْاِخْـلاصِ، وَ
الْـحَـجَّ تَشْـیـیـدًا لِـلـدّینِ، وَ الْـعَـدْلَ تَـنْسیقًـا لِـلْـقُلُـوبِ،
وَ طـاعَـتَنـا نِـظامـًا لِـلْمِلَّۃِ، وَ اِمـامَـتَنـا اَمـانـاً مِـن
الْفُـرْقَـۃِ، وَ الْـجِہـادَ عِـزًّا لِـلْاِسْـلامِ، وَ الـصَّـبْـرَ
مَـعُونَۃً عَـلَی اسْتیـجـابِ الْاَجْـرِ، وَ الْاَمْـرَ بِالْـمَعْرُوفِ
مَـصْلِـحَـۃً لِـلْعامَّـۃِ، وَ بِـرَّ الْـوالِـدَیـنِ وِقـایـۃً مِـنَ
الـسُّخْـطِ، وَ صِـلَـۃَ الْاَرْحـامِ مَـنْـماۃً لِـلْـعَـدَدِ، وَ الْـقِـصاصَ
حَـقْـنًا لِـلـدِّماءِ، وَ الْـوَفاءَ بِالـنَّـذْرِ تَـعْریضًـا
لِلْمَـغْفِـرَةِ، وَ تَـوْفِـیۃَ الْمَـكایِیلِ وَ الْـمَـوازینِ تَـغْـییراً
لِـلْبَـخْسِ، وَ النَّہْیَ عَـنْ شُـرْبِ الْـخَـمْرِ تَنْزیھًـا عَـنِ
الرِّجْـسِ، وَ اجْـتِنـابَ الْـقَـذْفِ حِـجـاباً عَـنِ الـلَّـعْنَـۃِ، وَ
تَـرْكَ السَّـرْقَـۃِ ایـجابـاً لِـلْـعِـفَّـۃِ، وَ حَـرَّمَ اللہُ الـشِّـرْكَ
اِخْـلاصـاً لَـہُ بِالرُّبوُبِـیَّـۃِ. فَ{اتَّـقُـوا اللہَ حَـقَّ تُـقـاتِـہِ
وَ لا تَـمُـوتُـنَّ اِلَّا وَ اَنْـتُـمْ مُسْـلِمُـونَ}(۱۶) وَ اَطـیـعُـوا اللہَ فِـیـمَا
اَمَـرَكُـمْ بِـہِ وَ نَـہَاكُـمْ عَـنْـہُ، فَـاِنَّـہُ {اِنَّـمـا یـخْـشَی
اللہَ مِـنْ عِـبـادِهِ الْـعُـلَـمـاءُ}.(۱۷)
اللہ تعالیٰ نے ایمان کو شرک سے پاک کرنے کا ذریعہ قرار دیا، اور
نماز کو تکبر اور غرور سے پاک ہونے کی خاطر واجب قرار دیا، اور زکوٰۃ کو رزق کی
برکت اور تہذیب نفس كے لئے لازمی قرار دیا، روزہ کو بندے کے اخلاص کو ثابت کرنے کے
لئے ضروری قرار دیا، حج کو واجب کیا تاکے دین اسلام کی بنیاد کو مضبوط کرے، اور
عدل كو زندگى كے نظم اور دلوں كى نزدیكى کے لئے واجب قرار دیا، اور ہماری اطاعت كو
ملت اسلامیہ كے نظم کی خاطر لازمی قرار دیا، اور ہماری امامت کو اختلاف اور تفرقہ
بازی سے بچنے کے لئے واجب قرار دیا، اور جہاد کو اسلام کی عزت کا موجب قرار دیا،
اور صبر کو اجر و ثواب حاصل کرنے کے لیے مددگار قرار دیا، امر بالمعروف کو عوام
الناس کی مصلحت کی خاطر واجب قرار دیا، اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کو خدا کے غضب
کو روکنے کا سبب قرار دیا، اور صلہ رحمی کو جمیعت کی افزائش اور قدرت کا وسیلہ بنایا،
اور قصاص کو حفظ نفوس کے لئے واجب قرار دیا، نذر كے پورا كرنے كو گناہوں کے معاف
ہونے كا سبب بنایا، ناپ تول میں دقت کرنے کو کم فروشی ختم کرنے کے لئے لازمی قرار
دیا، شراب نوشی کو پلیدی سے محفوظ رہنے کی خاطر حرام قرار دیا، بہتان اور بدکاری
کی نسبت دینے سے روکا تاکے خدا تعالیٰ کی لعنت سے بچ سکے، اور چورى نہ كرنے كو
پاكیزگی کا سبب بنایا، اور شرک کو بندگی کے اخلاص کی خاطر حرام قرار دیا، پس تقوىٰ
اور پرہیزگارى اختیار کرو جسطرح اختیار کرنے کا حق ہے، اور مسلمان ہوے بغیر مت
مرنا، خدا جس چیز کا حکم دیتا ہے یا منع کرتا ہے اس کی اطاعت کرو! اور علم و آگہی
کا راستہ اختیار کرو! کیونکہ لوگوں میں سے صرف اہل علم ہی خدا تعالیٰ سے ڈرتے ہیں
اور احساس مسئولیت کرتے ہیں.
اپنا تعارف
کروانا:
ثُـمَّ
قَالَـتْ: اَیُّـہَـا الـنَّـاسُ! اِعْـلَـمُـوا اَنّــی فـاطِمَۃُ وَ اَبی
مُحَمَّدٌ، اَقُـولُ عَـوْداً وَ بَـدْءاً، وَ لا اَقُـولُ مـا اَقُـولُ
غَـلَطـاً، وَ لا اَفْـعَـلُ مـا اَفْـعَـلُ شَـطَـطاً، {لَـقَـدْ جـاءَكُـمْ
رَسُـولٌ مِـنْ اَنْـفُـسِـكُـمْ عَـزیزٌ عَـلَـیـہِ مـا عَـنِـتُّـمْ حَـریـصٌ
عَـلَیـكُـمْ بِـالْـمُـؤْمِـنیـنَ رَؤُوفٌ رَحـیـمٌ}(۱۸) فَـاِنْ تَـعْـزُوهُ
وَتَـعْـرِفُـوهُ تَـجِـدُوهُ اَبـی دُونَ نِـسـائِـكُـمْ، وَ اَخَـا ابْـنِ
عَـمّـی دُونَ رِجـالِــكُـمْ، وَ لَنِـعْـمَ الْـمَـعْـزِیُّ اِلَـیـہِ صَلَّی
اللہُ عَلَیہ وَ الِہ
پھر فرمایا: اے لوگو جان لو کہ میں فاطمہ ہوں! اور میرے بابا محمد
ہیں، جو کچھ میں کہوں گی اس کی ابتدا اور انتہا ایک ہی ہے، اور اس میں کوئی تضاد
نہیں ہے، اور جو کچھ میں کہتی ہوں وہ غلط نہیں کہتی، اور میں اپنے اعمال میں خطا
نہیں کرتی، یقیناً تمہارے درمیان میں سے ایک رسول آیا کہ تمہارى تكلیف سے اسے
تكلیف ہوتى ہے، اور وہ تم سے محبت کرتا ہے، اور وہ مومنوں پر مہربان ہے، اگر تم
لوگ اس کی نسبت تلاش کروگے تو تمھیں پتا چلے گا کہ وہ میرے والد تھے، ناکے تمھاری
خواتین کے والد، میرے شوہر كے چچازاد بھائی تھے نہ تمہارے مردوں كے بھائی، یہ کتنی
خوبصورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نسبت ہے.
رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی توصیف:
فَـبَـلَّـغَ
بِـالـرِّسـالَـۃَ صـادِعـاً بِـالـنَّـذارَةِ، مـائِـلاً عَـنْ مَـدْرَجَـۃِ
الْـمُـشْـرِكـیـنَ، ضـارِباً ثَـبَـجَـہُمْ، آخِـذاً بِاَكْـظـامِـہِمْ،
داعِـیـاً اِلـی سَبـیـلِ رَبِّہِ بِـالْحِـكْمَۃِ و الْمَـوْعِـظَـۃِ
الْحَسَنَۃِ، یَـکْـسِـرُ الْاَصْـنـامَ وَ یـنْـكُـثُ الْہَـامَ، حَـتَّـی
انْـهَـزَمَ الْـجَـمْـعُ وَ وَلَّـوُا الـدُّبُـرَ، حَـتَّـی تَـفَـرَّی
الـلَّـیـلُ عَـنْ صُبْحِہِ، وَ اَسْـفَـرَ الْـحَـقُّ عَـنْ مَـحْـضِـہِ، و نَـطَـقَ
زَعـیـمُ الدّیـنِ، وَ خَـرَسَـتْ شَـقـاشِـقُ الشَّـیـاطـیـنِ، وَ طـاحَ وَ شیـظُ
الـنِّـفـاقِ، وَانْـحَـلَّـتْ عُـقَـدُ الْـكُـفْـرِ وَ الشَّـقـاقِ، وَ
فُہْـتُـمْ بِـكَــلِمَـۃِ الْاِخْـلاصِ.
پس انہوں نے بہترین انداز میں رسالت کی تبلیغ کی، اور لوگوں کو
واضح طور پر خبردار کیا، مشركوں كى راہ و روش پر حملہ آور ہوئے اور ان كى پشت پر
سخت حملہ کیا، ان کی گردنوں پر گھونسے مارے، اور ان كا گلا پكڑا، (تاکے وہ شرک سے
باز آجائیں، اور توحید کے راستے پر چلیں) اور ہمیشہ دانائی اور دلیل کے ساتھ اور
لوگوں کا ہمدرد بن کر انہیں خدا كى طرف دعوت دی، بتوں کو پاش پاش کیا، اور ان کے
سروں کو سرنگوں کیا، كفار نے شكست كھائی اور شكست كھا كر بھاگ گئے، تاریكیاں دور
ہوگئیں اور حق واضح ہوگیا، دین کے رہبر کی زبان بولنے لگی، اور شیاطین کی بک بک
ختم ہوگئی، اور نفاق کے پیروکار منہ کے بل زمین پر گر پڑے، کفر و اختلاف کی گرہیں
ٹوٹ گئیں، اور تم لوگوں نے کلمہ اخلاص(لا الہ الا اللہ) کے لئے اپنی زبان کھول دی.
اسلام سے
پہلے لوگوں کی ذلت اور پستی کی طرف اشارہ:
فــی
نَــفَــرٍ مِـنَ الْبَـیْـضِ الْـخِـمـاصِ، {وَكُـنْـتُـمْ عَـلیٰ شَـفـا
حُـفْـرَةٍ مِـنَ الـنَّـارِ}(۱۹) مُـذْقَـۃَ الـشَّـارِبِ، وَ نُہْـزَةَ الـطَّـامِـعِ،
وَ قُـبْسَۃَ الْـعَـجْـلانِ، وَ مَـوْطِـیءَ الْاَقْـدامِ، تَـشْـرَبُونَ
الـطَّـرْقَ، وَ تَـقْـتـاتُونَ الْوَرَقَ، اَذِلَّۃً خـاسِئـیـنَ، تَـخـافُـونَ
اَنْ یـتَـخَطَّفَـكُـمُ النَّـاسُ مِـنْ حَـوْلِـكُمْ، فَـاَنْـقَـذَكُـمُ اللہُ
تَـبـارَكَ وَ تَـعالیٰ بِـمُـحَمَّـدٍ صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَ الِہِ بَـعْـدَ
الـلَّـتَـیـا وَ الَّـتـی، وَ بَـعْـدَ اَنْ مُـنِـیَ بِـبُـهَـمِ الـرِّجـالِ،
وَ ذُؤْبـانِ الْـعَـرَبِ، وَ مَـرَدَةِ اَهْـلِ الْـكِتـابِ.
حالانکہ تم لوگ ایک چھوٹے گروہ کے علاہ کچھ نہیں تھے، اور تم لوگ
جہنم كے كنارے كھڑے تھے، اور تم اتنی کم تعداد میں تھے کہ جیسے کسی پیاسے شخص کے
لئے ایک گھونٹ پانی، یا بھوکے شخص کے لئے ایک لقمہ، یا آگ تلاش کرنے والے کے لئے
ایک آگ کا شعلہ، اور تم لوگ قبائل كے پاؤں كے نیچے دبے ہوے تھے، گندا پانى پیتے
تھے، اور درختوں كے پتے کھاتے تھے، تم لوگ ذلیل و خوار تھے، اور ہمیشہ اس خوف و
ہراس میں زندگی بسر کرتے تھے کہ کہیں کوئی دشمن تمھیں اپنا لقمہ نہ بنادے، ان تمام
بدبختیوں كے بعد خدا نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كے وجود بابركت سے تمہیں ذلت
و خواری سے نجات دی، میرے بابا عربوں کے بہادروں سے لڑے اور عرب كی بھیڑیوں اور
عیسائیوں اور یہودیوں كے سركشوں سے پنجہ آزمائی کی.
امام علی
علیہ السلام کا جنگوں میں کردار:
{كُـلَّما اَوْقَـدُوا نـاراً لِـلْـحَـرْبِ اَطْـفَـأَهَـا اللہُ}(۲۰)، اَوْ نَـجَـمَ قَـرْنٌ
الـشَّـیطـانِ، اَوْ فَـغَـرَتْ فـاغِـرَةٌ مِـنَ الْـمُـشْـرِكـیـنَ، قَـذَفَ
اَخـاهُ فـی لَـهَـواتِہـا، فَـلایـنْـكَـفِـاُ حَــتّٰی یـطَـأَ صِـمَـاخَـھَـا
بِـأَخْـمَـصِـہِ، وَ یُـخْمِـدَ لَـهَـبَهـا بِـسَیـفِـہِ، مَـكْـدُوداً فـی ذاتِ
اللہِ، مُـجْتَـهِـدًا فـی اَمْـرِ اللہِ، قَـریبـًا مِـنْ رَسُـولِ اللہِ،
سَیـداً فـی اَوْلِیاءِ اللہِ، مُـشَـمِّـراً نـاصِـحاً مُـجِـدّاً كـادِحـاً،
لاتَـأْخُـذُهُ فِـی اللہِ لَـوْمَـۃَ لائِـمٍ. وَ اَنْــتُـمَ فـی رَفاهِیَۃٍ
مِـنَ الْـعَیشِ وَادِعُـونَ، فـاكِـهُـونَ آمِـنُـونَ، تَـتَـرَبَّـصُـونَ
بِـنَـا الـدَّوائِـرَ، وَ تَـتَـوَكَّـفُـونَ الْاَخْـبـارَ، وَ تَـنْـكُـصُـونَ
عِـنْـدَ الـنِّـزالِ، وَ تَـفِـرُّونَ عِـنْـدَ الْـقِتـالِ.
جب بھی وہ جنگ كى آگ كو بھڑكاتے تھے
خدا اسے خاموش كر دیتا تھا، یا جب كوئی شیطان سر اٹھاتا یا مشركوں کے پھیلائے ہوے
فتنے منہ كھولتے تھے تو رسول اللہ اپنے بھائی (على علیہ السلام) كو ان كے گلے میں
اتار دیتے تھے، اور انہیں (امام علی علیہ السلام) کے ذریعے سرکوب کر دیتے تھے، اور
وہ (امام علی علیہ السلام) جب تک دشمنوں کے سروں کو پائمال نہ کرتے، میدان سے واپس
لوٹ کر نہیں آتے تھے، اور اپنی تلوار سے جنگ کی آگ کو خاموش کر دیتے تھے، وہ (امام
علی) خدا تعالیٰ کی خوشنودی کی خاطر ان تمام سختیوں پر تحمل و بردباری سے کام لیتے
تھے، اور دستوراتِ الہی کو انجام دینے میں کوشش کرتے تھے، وہ رسول اللہ كے نزدیک
تھے، اور اولیائے خدا کے سید و سردار تھے، وہ ہمیشہ جہاد كے لئے اور لوگوں کی
خیرخواہی کے لئے آمادہ تھے، وہ جدّیت کے ساتھ تلاش و کوشش کرتے تھے. اور (تم لوگوں
کی حالت یہ تھی کہ) تم آرام اور نعمتوں میں خوش و خرم ہوکر زندگى گزار رہے تھے،
اور اس انتظار میں رہتے تھے کہ ہم (اہل بیت) کے ساتھ کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش
آجائے، اور (ہمارے بارے میں كسى بری) خبر كے منتظر رہتے تھے، جنگ کے موقعے پر عقب
نشینی کرتے تھے، اور حملے کے وقت فرار ہو جائے تھے.
تیسری فصل:
غصب خلافت پر اعتراض
فَـلَـمَّـا
اخْـتـارَ اللہُ لِـنَـبِیـہِ دار اَنْـبِیـائِـہِ وَ مَـأْوی اَصْـفِـیـائِہِ،
ظَہَـرَ فِیـكُـمْ حَـسِیكَـۃُ النِّـفـاقِ، وَسَـمَـلَ جِـلْبـابُ الدّیـنِ،
وَنَـطَـقَ كـاظِـمُ الْـغـاوینَ، وَ نَـبَـغَ خـامِـلُ الْاَقَـلِّیْنَ، وَ
هَـدَرَ فَـنیـقُ الْـمُبْـطِـلِینَ، فَـخَـطَـرَ فـی عَـرَصاتِـكُـمْ،
وَاَطْـلَـعَ الـشَّیـطـانُ رَأْسَـہُ مِـنْ مَـغْـرَزِهِ، هـاتِـفـاً بِـكُـمْ،
فَـأَلْفاكُـمْ لِـدَعْـوَتِـہِ مُـسْتَجِـیبِـیـنَ، وَلِـلْغِـرَّةِ فـیہِ
مُـلاحِظِینَ، ثُـمَّ اسْـتَـنْہَضَـكُمْ فَـوَجَـدَكُـمْ خِـفـافاً، وَ
اَحْـمَشَـكُـمْ فَـاَلْفـاكُمْ غِـضـاباً، فَـوَسَمْـتُـمْ غَـیرَ اِبِـلِـكُـمْ،
وَ وَرَدْتُـمْ غَیـرَ شِـرْبِـكُـمْ، هٰـذا وَالْـعَهْـدُ قَـریبٌ، وَالْـكَلْمُ
رَحـیـبٌ، وَ الْجُـرْحُ لَـمَّـا یـنْـدَمِـلُ، وَ الـرَّسُـولُ لَـمَّـا
یُـقْبَـرْ، اِبْـتِـداراً زَعَـمْتُـمْ خَـوْفَ الْفِـتْـنَـۃِ، {اَلا فِـی
الْفِـتْـنَـۃِ سَـقَـطُوا، وَ اِنَّ جَہَنَّمَ لَمُحیطَۃٌ بِـالْـكافِریـنَ}(۲۱)
جب خدا تعالیٰ نے اپنے نبی كو دوسرے انبیاء كى جگہ انتخاب کیا، اور
ان کے مقام کو اپنے نبی کے لئے منزل قرار دی، تو اچانک تمہارا اندرونى كینہ اور نفاق
ظاہر ہوگیا، تمھارے دین كا لباس اتر گیا، اور گمراہ لوگ آواز بلند کرنے لگے، اور
بھولے بھالوں نے اپنا سر اٹھا دیا، اور باطل لوگوں کے جانور کی آوازیں بلند ہوئیں،
اور اپنی دم ہلانے لگا، اور شیطان نے اپنا سَر كمین گاہ سے باہر نكالا، اور تمہیں
اس نے اپنى طرف دعوت دینا شروع کردی، اور تمھیں اپنی دعوت کو قبول کرنے کی طرف
آمادہ کیا، اس نے تم لوگوں کو(فتنے کی طرف)ابھارا اور تم بھی اس کے فریب میں آگئے،
اس کے بعد اس نے تمھیں قیام کرنے کی دعوت دی، اس نے تمہارے دلوں میں غصہ اور
انتقام کے شعلے بھڑکائے اور تم میں غصے کے اثرات ظاہر ہوئے، اور یہی سبب بنا کہ وہ
اونٹ جو تم میں سے نہیں تھا تم نے اسے با علامت بنایا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ تم
لوگوں نے خلافت کو غصب کرنا شروع کردیا، حالانكہ ابھى رسول اللہ كى رحلت كو زیادہ
وقت نہیں گزرا تھا، ابھى تک ہمارے دل كے زخم ختم نہیں ہوے تھے، اور نہ ہی شگافتہ
زخم بھرے تھے، ابھى تو رسول اللہ كو دفن بھى نہیں كیا تھا، تم نے یہ بہانا بناکر
کہ «ہمیں فتنے کا خوف ہے» خلافت پر قبضہ كرلیا، لیكن خبردار رہو كہ تم فتنے میں
پہلے سے ہی داخل ہوچكے ہو، اور دوزخ نے كافروں كو گھیر رکھا ہے
فرامین قرآن
مجید کی نافرمانی کرنا:
فَہَیهاتَ
مِـنْكُـمْ! وَ كَـیـفَ بِكُمْ؟ وَ اَنَّـی تُـؤْفَـكُـونَ، وَ كِـتـابُ اللہِ
بَـیـنَ اَظْـہُـرِكُـمْ، اُمُـورُهُ زَاهِـرَةٌ(ظَـاھِـرۃٌ)، وَ اَعْـلامُـہُ
بـاهِـرَةٌ، و زَواجِـرُهُ لائِـحَـۃٌ، وَ اَوامِـرُهُ واضِـحَـۃٌ، قَـدْ
خَـلَّـفْـتُـمُوهُ وَراءَ ظُہُورِكُـمْ، أَرَغْـبَـۃً عَـنْـہُ تُـریـدُونَ؟ اَمْ
بِـغَـیـرِهِ تَـحْكُـمُـونَ؟ بِـئْـسَ لِـلظَّـالمـیـنَ بَـدَلاً، {وَ مَـنْ
یَبْتَـغِ غَیـرَ الْاِسْـلامِ دینـًا فَـلَـنْ یقْبَلَ مِنْـہُ وَ هُــوَ فِـی
الْاخِـرَةِ مِـنَ الْخـاسِرِینِ}(۲۲)
تم سے اِن کاموں کی ہرگز یہ امید نہیں تھی، آخر تمھیں کیا ہوگیا ہے
اور كہاں جارہے ہو؟ حالانكہ اللہ كى كتاب تمہارے درمیان موجود ہے کہ جس کے تمام
امور نور کی طرح روشن ہیں، اور اس كے اوامر واضح اور نواہى آشکار ہیں، مگر تم
لوگوں نے قرآن کو پسِ پشت ڈال دیا، كیا تمھارا یہ ارادہ ہے كہ قرآن سے روگردانی
كرلو؟ یا قرآن كے علاوہ كسى اور سے حکم لینا چاہتے ہو؟ افسوس ہے ان پر کہ جن لوگوں
نے ظالموں کو قرآن مجید کی جگہ منتخب کیا، پس جو شخص بھى اسلام كے علاوہ كسى دوسرے
دین كو اختیار كرے گا وہ ہرگز قبول نہیں كیا جائے گا، اور آخرت میں وہ نقصان
اٹھانے والوں میں سے ہوگا.
شیطان کو
لبیک کہنا:
ثُـمَّ لَـمْ
تَـلْبَـثُـوا إلَّا رَیـثَ (اِلی رَیثَ) اَنْ تَـسْـكُـنَ نَـفْـرَتُہَا، وَ
یَـسْلَـسَ قِـیـادُهـا، ثُـمَّ اَخَـذْتُـمْ تُـورُونَ وَ قْدَتَہـا، وَ
تُہَیِّجُـونَ جَـمْرَتَہَا، وَ تَـسْتَـجیبُونَ لِـهِـتافِ الشَّـیـطـانِ
الْـغَـوِیِّ، وَ اِطْـفـاءِ اَنْـوارِ الدّیـنِ الْجَـلِـیِّ، وَ اِخْـمادِ
سُـنَـنِ الـنَّـبِیِّ الصَّـفِـیِّ، تُـسِـرُّونَ حَسْـواً فِـی ارْتِـغـاءٍ، وَ
تَـمْشُـونَ لِاَهْلِہِ وَ وُلَـدِهِ فِـی الْـخَـمَـرِ وَ الـضَّـرَّاءِ، وَ
نَـصْبِـرُ مِـنْـكُـمْ، عَـلیٰ مِـثْـلِ حَـزِّ الْمُدی، وَ وَخْـزِ السِّـنَـانِ
فِی الْحَشـا.
تم لوگوں نے خلافت کی اونٹنی کو
اپنے لئے منتخب کیا، کیا تم اتنا بھى صبر نہیں کر سکتے تھے كہ وہ فتنوں كى آگ كو
خاموش كرتا، اور اس كى قیادت آسان ہوجاتی، بلكہ تم لوگوں نے آگ کو روشن کیا، اور
اس کے شعلوں کو مزید بھڑکایا، اور شیطان كى دعوت پر لبیک کہا، اور آئین دین حق و
سنت رسولِ خدا كے خاموش كرنے میں مشغول ہوگئے، (دودھ سے) جھاگ لینے کے بہانے تم نے
چھپ چھپ کر سب پی لیا، تم لوگ رسول اللہ کے خاندان اور ان کے بچوں کو الگ تھلگ
کرنے کی تاک میں بیٹھے ہوے تھے، ہمارے پاس بھی صبر کے علاؤہ کوئی چارہ نہیں تھا،
(ہماری حالت یہ تھی کہ) جیسے کسی شخص کے گلے پر خنجر یا کسی شخص کے دل پر نیزے کی
نوک بیٹھی ہوئی ہو.
چوتھی فصل:
ابوبکر سے مخاطب ہونا
وَ
اَنْـتُـمُ اَلَانَ تَـزْعَـمُـونَ اَنْ لا اِرْثَ لَـنـا؟ أَفَـحُـكْـمَ
الْـجاهِـلِـیـۃِ تَـبْـغُـونَ، {وَ مَـنْ اَحْـسَـنُ مِـنَ اللَّـہِ حُـكْـمـاً
لِـقَـومٍ یـوقِـنُـونَ}(۲۳) أَفَـلاتَـعْـلَـمُـونَ؟ بَـلـیٰ، تَـجَـلّٰـی
لَـكُـمْ كَـالـشَّـمْـسِ الـضَّـاحِـیـۃِ أَنّـی اِبْـنَـتُـہُ اَیُّـهَـا
الْـمُـسْلِـمُـونَ! أَ اُغْـلَـبُ عَـلیٰ اِرْثـیـہِ؟
عجیب بات ہے تم یہ گمان کرتے ہو کہ خداوند متعال نے ہمارے لئے کوئی
میراث نہیں رکھی ہے؟ (اور میں اپنے بابا سے میراث نہیں لے سکتی) كیا تم دورہ
جاہلیت كے احکام کی پیروی کرنا چاہتے ہو؟ اور جو اہل یقین ہیں ان کے لئے بھلا خدا
تعالیٰ کے احکام سے بہتر بھی کوئی چیز ہے؟ کیا تم ان مسائل سے ناواقف ہو؟ ہاں!
کیوں نہیں، تمہارے سامنے سورج كى طرح یہ روشن ہے کہ میں رسول اللہ کی بیٹی ہوں،
اور تم اے مسلمانوں! کیا یہ درست ہے کہ میری میراث مجھ سے زبردستی چھین لی جائے؟
قرآن مجید سے
دلائل:
یـَـابْـنَ
اَبـی قُـحـافَـۃَ! اَفــی كِـتـابِ اللہِ اَنْ تَـرِثَ اَبـاكَ وَ لا اَرِثَ
اَبـی؟ لَـقَـدْ جِـئْـتَ شَـیئـاً فَـرِیًّا، اَفَـعَـلیٰ عَـمْـدٍ تَـرَكْـتُـمْ
كِـتـابَ اللہِ وَ نَـبَـذْتُـمُـوهُ وَراءَ ظُـهُـورِكُـمْ، إذْ یـقُـولُ: {وَ
وَرِثَ سُلَـیـمـانُ داوُدَ}(۲۴) وَ قـالَ فِـیـمَا اقْـتَـصَّ مِـنْ خَـبَـرِ
زَكَـرِیّـا اِذْ قـالَ: {فَـہَـبْ لِـی مِـنْ لَـدُنْـكَ وَلِـیا یـرِثُـنی وَ
یـرِثُ مِـنْ آلِ یـعْـقُـوبَ}(۲۵) وَ قــالَ: {وَ اُوْلُـوا الْاَرْحـامِ بَـعْـضُـہُمْ
اَوْلـیٰ بِـبَـعْـضٍ فـی كِـتـابِ اللہِ}(۲۶) وَ قـالَ: {یُـوصِیكُـمُ اللہُ
فـی اَوْلادِكُـمْ لِـلـذَّكَـرِ مِـثْـلُ حَـظِّ الْاُنْـثَـیَیْـنِ}(۲۷) وَ قـالَ: {اِنْ تَـرَكَ
خَـیـراً الْٓوَصِـیـۃُ لِـلْـوالِدَیـنِ وَالْاَقْـرَبَیـنَ بِـالْـمَـعْـرُوفِ
حَـقّاً عَـلَی الْـمُتَّـقیـنَ}(۲۸) وَ زَعَـمْـتُـمْ اَنْ لاحَـظْـوَةَ لِـی، وَ لا
اَرِثُ مِـنْ اَبِـی؟ وَ لارَحِـمَ بَیـنَـنـا؟ اَفَـخَـصَّـكُـمُ اللہُ بِآیـۃٍ
اَخْـرَجَ مِـنْہا اَبِـی؟ اَمْ هَـلْ تَـقُـولُـونَ: اِنَّ اَهْـلَ مِـلَّـتَیـنِ
لایـتَـوارَثـانِ؟ اَوَ لَـسْـتُ اَنَـا وَ اَبـی مِـنْ اَهْـلِ مِـلَّـۃٍ
واحِـدَةٍ؟ اَمْ اَنْـتُـمْ اَعْـلَـمُ بِـخُـصُـوصِ الْـقُـرْآنِ وَ عُـمُـومِـہِ
مِـنْ اَبـی وَابْـنِ عَـمّـی؟ فَـدُونَـكَہـا مَـخْـطُـومَـۃً مَـرْحُـولَـۃً
اے قحافہ کے بیٹے! (ابوبكر) مجھے بتائو! کیا یہ قرآن میں لکھا ہے
کہ تم اپنے باپ سے میراث تو لے سکتے ہو مگر میں اپنے بابا کی میراث سے محروم رہوں،
کتنی بُری سوچ رکھتے ہو! کیا تم نے جان بوجھ کر کتابِ خدا کو چھوڑ دیا ہے، اور اسے
پسِ پشت ڈال دیا ہے؟ جب کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے: سلیمان، داود كے وارث بنے، اسی
طرح خدا تعالیٰ نے یحیىٰ بن زکریا علیہما السلام كا قول نقل کرتے ہوے فرمایا: خدا
تعالیٰ سے انہوں نے عرض كى پروردگار! مجھے فرزند عنایت فرما تاكے وہ میرا اور آل
یعقوب كا وارث بنے، اس طرح ارشاد خداوندی ہوتا ہے: اور رشتہ دار آپس میں اللہ
تعالیٰ کے احکام کے مطابق (دوسروں کی بنسبت) ایک دوسرے کے زیادہ حق دار ہیں، اسی
طرح فرماتا ہے: اللہ تمھاری اولاد کے بارے میں حكم دیتا كہ لڑكے، لڑكیوں سے دوگنا
ارث لیں، اسی طرح ارشاد باری تعالیٰ ہوتا ہے: تم پر مقرر كردیا ہے كہ جب تمہارا
كوئی نزدیکی موت كے قریب ہو تو وہ ماں، باپ اور رشتہ داروں كے لئے وصیت كرے كیونكہ
ایسا کرنا پرہیزگاروں کا حق ہے، کیا تم یہ گمان كرتے ہو كہ میں اپنے بابا کے نزدیک
نہیں ہوں، اور میں ان سے کوئی ارث نہیں لے سکتی، اور میری ان کے درمیان کوئی نسبت
نہیں ہے؟ كیا ارث والى آیات صرف تمہارے لئے مخصوص ہیں، اور میرے بابا ان آیات میں
شامل نہیں ہیں؟ یا اس دلیل سے مجھے میراث سے محروم کر رہے ہو کہ دو مذہب رکھنے
والے ایک دوسرے کے وارث نہیں بن سکتے، لہذا میرا دین میرے بابا کے دین سے الگ ہے؟
یا تم میرے بابا اور میرے چچازاد (امام على) سے زیادہ قرآن کے عام اور خاص كو بہتر
سمجھتے ہو؟ اگر ایسا ہے تو اسے(میری میراث) لے لو، جو ایک دَم تیار ہے، اور مہار
شدہ ہے، اس پر سوار ہو جائو (یہ فدک تمھیں مبارک ہو)
قیامت کے دن
ملاقات:
تَـلْقـاکَ
یـوْمَ حَـشْـرِكَ، فَـنِـعْـمَ الْـحَـكَـمُ اللہُ، وَ الـزَّعـیـمُ
مُـحَـمَّـدٌ، وَ الْـمَوْعِـدُ الْـقِـیامَـۃُ، وَ عِـنْـدَ السَّـاعَـۃِ
یَـخْـسَـرُ الْـمُـبْـطِـلُـونَ، وَ لاینْـفَـعُـكُمْ اِذْ تَـنْـدَمُـونَ، وَ
{لِـكُـلِّ نَـبَـأٍ مُـسْـتَـقَـرٌّ، وَ سَـوْفَ تَـعْـلَـمُـونَ}(۲۹) {یَـأْتـیہِ عَـذابٌ یُـخْـزیہِ،
وَ یـحِـلُّ عَـلَیـہِ عَـذابٌ مُـقـیـمٌ}(۳۰)
مگر جان لو کہ قیامت كے دن تم سے
ملاقات كروں گى، پس اس دن قضاوت کرنے والی ذات خدا تعالیٰ کی ہوگی، اور محمد صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم مدّعی ہونگے، اور فیصلے کی تاریخ، قیامت کا دن ہوگا كہ جس دن
بیہودہ لوگ اپنا نقصان دیکھیں گے، اور پھر اس دن تمھارے پشیمان ہونے کا کوئی فائدہ
نہیں ہوگا، اور ہر چیز (کے وقوع) کا ایک وقت مقرر ہے، اور تمہیں معلوم ہو جائے گا،
کہ کس پر رسوا کرنے والا عذاب آتا ہے، اور دائمی عذاب میں مبتلا ہوجاتا ہے.
پانچویں فصل:
دوسروں کی خاموشی پر اعتراض کرنا
ثم رمت
بطرفہا نحو الانصار:
اس كے بعد آپ انصار كى طرف متوجہ ہوئیں
فَقَالَتْ:
یا مَعْشَـرَ الْفِـتْیَـۃِ(النَّقِیْبَۃِ)وَ اَعْـضـادَ الْمِـلَّـۃِ وَ
حَـضَـنَـۃَ الْاِسْلامِ! مَـا هٰـذِهِ الْغَمِـیـزَةُ فِـی حَـقِّی وَ السِّنَـۃُ
عَـنْ ظُلامَتی؟ اَمـا كـانَ رَسُـولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَ الِہٖ اَبِـی
یَـقُـولُ:{اَلْمَـرْءُ یُحْـفَـظُ فِـی وُلْـدِهِ} سَـرْعـانَ مَـا
اَحْـدَثْـتُـمْ وَ عَـجْلانَ ذا اِهـالَـۃٍ، وَ لَكُـمْ طـاقَـۃٌ بِمَـا
اُحـاوِلُ، وَ قُـوَّةٌ عَلیٰ مـا اَطْـلُـبُ وَ اُزاوِلُ، اَتَـقُـولُـونَ مَـاتَ
مُـحَـمَّـدٌ؟ فَـخَـطْـبٌ جَـلیـلٌ اِسْـتَـوْسَـعَ وَهْـنُـہُ، وَاسْـتَنْهَـرَ
فَـتْـقُـہُ، وَ نْـفَتَـقَ رَتْـقُـہُ، وَ اُظْـلِـمَـتِ الْاَرْضُ
لِغَیبَـتِـہِ، وَ كُـسِـفَـتِ النُّـجُـومُ لِـمُصِیْبَـۃِ، وَ اَكْـدَتِ
الْاَمـالُ، وَ خَـشَـعَـتِ الْجِـبـالُ، وَ اُضـیعَ الْـحَریـمُ، وَ اُزیـلَتِ
الْـحُـرْمَۃُ عِنْدَ مَـمـاتِـہِ. فَـتِلْـكَ وَاللہِ النَّـازِلَـۃُ
الْـكُـبْـریٰ وَ الْمُصیـبَـۃُ الْعُـظْمـیٰ، لامِثْـلُهـا نازِلَـۃٌ، وَ
لابـائِـقَـۃٌ عـاجِـلَـۃٌ اَعْـلَـنَ بِـها، كِتـابُ اللہِ جَـلَّ ثَـنـاؤُهُ
فِـی اَفْــنِـیَــتِـكُـمْ، وَ فِـی مُـمْسـاكُـمْ وَ مُـصْـبَحِـكُمْ،
هُتَـافـاً وَ صُـراخـاً وَ تِـلاوَةً وَ اَلْحـانـاً، وَ لَـقَـبْلَـہُ مَا
حَـلَّ بِاَنْـبِیاءِ اللہِ وَ رُسُـلِـہِ، حُـكْـمٌ فَـصْلٌ وَ قَـضاءٌ حَتْـمٌ،
{وَ ما مُحَـمَّـدٌ اِلَّا رَسُـولٌ قَـدْ خَـلَـتْ مِـنْ قَبْلِہِ الـرُّسُـلُ
اَفَـاِنْ مَـاتَ اَوْ قُـتِـلَ انْقَـلَـبْتُـمْ عَلیٰ اَعْـقـابِكُـمْ وَ مَـنْ
ینْـقَـلِبْ عَـلیٰ عَـقِبَـیہِ فَـلَنْ یضُـرَّ اللہَ شَیـئاً وَ سَیـجْـزِیَ
اللہُ الشَّـاكِـرینَ}(۳۱)
پھر فرمایا: اے جوانوں! اے ملت کے بازوؤں! اور اسلام كى نصرت كرنے
والو! كیوں میرے آشکار حق کے بارے میں نظر اندازی سے کام لے رہے ہو؟ کیوں مجھ پر
ڈھائے گئے ظلم کے سامنے کوتاہی کا مظاہرہ کر رہے ہو؟ کیا میرے بابا فرماتے نہیں
تھے كہ: كسى كا احترام اس كى اولاد میں بھى محفوظ ہوتا ہے؟ (یعنى کسی كے احترام كى
وجہ سے اس كى اولاد كا بھی احترام كیا كرو) تم لوگوں نے كتنى جلدى اپنی صورتحال
تبدیل کرلی، اور کتنی جلدی ہوَس میں مبتلا ہوگئے؟ درحالانکہ تم لوگ میرے حق کو
واپس کرانے پر قدرت ركھتے ہو، اور میرے مدعا کو عملی جامہ پہنانے پر کافی طاقت
ركھتے ہو، کیا تم لوگ کہتے ہو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مرگئے؟ ( اور تمام چیزیں
ختم ہوگئی؟ اور ان کی اہل بیت کو فراموش کر دیا جائے) جى ہاں! اگرچے ان کی وفات
عالم اسلام کے لیے ایک المیہ اور دردناک دھچکا تھا کہ ہر روز اس كا شگاف بڑھ رہا
ہے، اور اس كا خلل زیادہ ہوتا جا رہا ہے، اُن كى غَیبت سے زمین تاریک ہوگئی، اور
اُن کی مصیبت پر ستارے تتربتر ہوگئے، امیدیں ٹوٹ گئیں، اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہوگئے،
اور لوگوں کا احترام پائمال ہوگیا، اور ان کی وفات سے کوئی حرمت باقی نہیں رہی،
بخدا قسم! یہ ایک بہت بڑا حادثہ تھا، اور ایک عظیم مصیبت تھی، ایسی مصیبت جس کی
کوئی مثال نہیں ملتی، اور یہ ایک ناقابل تلافی نقصان ہے، مگر یاد رہے کہ کتاب خدا
نے ان کے وفات کی خبر پہلے سے ہی سنا دی تھی، وہی قرآن جو ہمیشہ تمھارے گھروں میں
موجود ہے، جس کی قرأت صبح اور شام بلند اور آہستہ اور مختلف صورتوں میں ہمارے
کانوں کو سنائی دیتی ہے، ان سے پہلے والے انبیاء بھی اس حقیقت(موت)کا سامنا کر چکے
ہیں، کیونکہ موت خداوند متعال کی طرف سے ایک حتمی فیصلہ ہے، جس سے کوئی بھی بچ
نہیں سکتا، قرآن مجید میں واضح بیان ہوا ہے كہ: اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
پیغمبر کے سوا کچھ نہیں، بیشک ان سے پہلے دوسرے پیغمبر بھی گزر چکے ہیں تو کیا اگر
وہ وفات پا جائیں یا قتل کر دیئے جائیں تو تم لوگ الٹے پاؤں (کفر کی طرف) پلٹ
جاؤگے اور جو کوئی ایسا کرے گا وہ ہرگز اللہ تعالیٰ کو کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا
اور عنقریب خدا تعالیٰ شکرگزار بندوں کو جزا دے گا.
کیوں کوئی
کام نہیں کرتے؟
اِیْـھًـا
بَنِـی قَـیـلَـۃَ! أَ اُهْـضَـمُ تُـرَاثَ اَبِـیـہَ وَ اَنْـتُـمْ بِـمَـرْأیً
مِـنِّـی وَ مَـسْـمَـعً وَ مُـنْـتَـدیً وَ مَـجْمَـع؟ تَـلْبَسُكُـمُ
الـدَّعْـوَةُ وَ تَـشْمَـلُـكُـمُ الْـخُـبْـرَةُ، وَ اَنْـتُـمْ ذَوُو
الْـعَـدَدِ وَ الْـعُـدَّةِ وَ الْاَداةِ وَ الْـقُـوَّةِ، وَ عِـنْـدَكُـمُ
السِّـلاحُ وَ الْـجُـنَّـۃُ، تُـوافِیـكُـمُ الـدَّعْـوَةُ فَلاتُـجـیبُـونَ، وَ
تَـأْتِـیَـكُـمُ الـصَّرْخَـۃُ فَـلاتُـغِیثُـونَ، وَ اَنْـتُـمْ مَـوْصُـوفُـونَ
بِالْـكِفَـاحِ، مَـعْـرُوفُـونَ بِـالْـخَـیرِ وَ الـصَّـلاحِ، وَ الـنُّخْـبَـۃُ
الَّـتِـی انْـتُـخِبَـتْ، وَ الْـخِـیَـرَةُ الَّـتِی اخْتِـیَـرَتْ،
قـاتَلْتُـمُ الْـعَـرَبَ، وَ تَـحَمَّـلْتُـمُ الْـكَـدَّ وَ الـتَّـعَـبَ، وَ
نـاطَـحْـتُـمُ الْاُمَـمَ، وَ كافَـحْـتُـمُ الْـبُـهَـمَ، لانَـبْـرَحُ اَوْ
تَـبْـرَحُـونَ، نَـأْمُـرُكُـمْ فَتَـأْتَـمِـرُونَ، حَـتّٰـی اِذَا دَارَتْ
بِـنا رَحَـی الْاِسْـلامِ، وَ دَرَّ حَـلْـبُ الْاَیّـامِ، وَ خَـضَـعَـتْ
نَـعْـرَةُ الشِّـرْكِ، وَ سَـكَـنَـتْ فَـوْرَةُ الْاِفْـکِ، وَ خَـمَـدَتْ
نِـیْـرانُ الْـكُـفْـرِ، وَ هَـدَأَتْ دَعْـوَةُ الْـهَـرْجِ، وَ اسْتَـوْسَـقَ
نِظـامُ الـدِّیـنِ، فَـاَنَّی حِـزْتُـمْ بَـعْـدَ الْـبَیـانِ؟ وَاَسْـرَرْتُـمْ
بَـعْـدَ الْاَعْـلانِ؟ وَ نَكَـصْتُـمْ بَـعْـدَ الْاَقْـدامِ؟ وَاَشْـرَكْـتُـمْ
بَـعْـدَ الْاِیمَانِ؟ {اَلَا تُـقَـاتِـلُـونَ قَـومًا نَّـکَـثُو
اَیْـمَـانَـھُـمْ وَ هَـمُّـوا بِـاِخْـراجِ الـرَّسُـولِ وَ هُـمْ بَـدَؤُكُـمْ
اَوَّلَ مَـرَّةٍ، اَتَـخْـشَوْنَـهُـمْ فَاللہُ اَحَـقُّ اَنْ تَـخْـشَـوْهُ اِنْ
كُـنْـتُـمْ مُـؤمِنـیـنَ}(۳۲)
عجب ثُم عجب اے فرزندان قیلہ: (گروہ انصاران) میری میراث کو پائمال
کیا جا رہا ہے، اور تم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہو اور اپنے کانوں سے سن رہے ہو،
اور اس جلسے میں موجود ہو، میرى پكار تم تک پہنچ رہی ہے، اور تمام واقعے سے باخبر
ہو پھر بھی خاموش بیٹھے ہوے ہو حالانکہ تمہارى تعداد زیادہ ہے، اور تمھارے پاس
کافی طاقت ہے، اور تمھارے ہاتھوں میں اسلحہ بھی ہے، میرے استغاثہ كى آواز تم تک
پہنچ رہی ہے، لیكن تم اس پر لبیک نہیں كہتے؟ میرى فریاد كو تو سن رہے ہو لیكن میرى
فریاد رسى نہیں کرتے؟ حالانکہ تم بہادرى میں معروف ہو، اور نیكى اور خیر میں مشہور
ہو، اور تم لوگ قبائل اور اقوام میں برگیزیدہ ہو، اور تم عرب مشرکوں كے ساتھ بر
سرِ پیکار رہے ہو، اور ان کی گردنوں کو توڑ ڈالا، اسی طرح تم لوگوں نے سختیوں اور
مصیبتوں كو برداشت کیا، اور جنگجوئوں سے پنجہ آزمائی كى، جب ہم حرکت کرتے تھے تو
تم بھى ہمارے ساتھ اُٹھ کر حرکت کرتے تھے، ہم حكم دیتے تھے تو تم اطاعت كرتے تھے،
ہمارے ساتھ قدم به قدم چلتے تھے، یہاں تک کہ اسلام نے ہمارے وجود مبارک سے رونق
پائی، اور غنائم میں اضافہ ہوگیا، اور شرک کی چیخیں دھم گئیں، اور انکے بھڑکائے
ہوے شعلوں کا جوش ختم ہوگیا، کفر کی آگ بجھ گئی، اور جھوٹی اور باطل دعوتوں کے
سلسلے ختم ہوگئے، اور نظامِ دین مستحكم ہوگیا، پھر آج تم لوگ کیوں قرآن اور رسول
کے ان تمام بیانات سے حیران و پریشان ہو؟ کیوں حقائق کے آشکار ہونے کے بعد انہیں
چھپا رہے ہو؟ کیوں پیش قدمی کے بعد پیچھے ہٹ گئے، اور ایمان لانے کے بعد پھر مشرک
ہوگئے؟ کیا جس گروہ نے اپنے پیمان کو توڑ دیا، اور رسول کو(وطن سے)نکالنے کا ارادہ
کیا، ان سے جنگ نہیں کرو گے؟ حالانکہ انہوں نے پہلی بار (تمھارے ساتھ جنگ لڑنے) کا
آغاز کیا ہے، کیا تم لوگ ان سے ڈرتے ہو؟ حالانکہ خدا تعالیٰ کی ذات زیادہ حقدار ہے
کہ تم لوگ اس سے ڈرو! اگر تم مؤمن ہو.
لوگوں کے
خاموش رہنے کی اصل وجہ:
اَلَا قَـدْ
أَری اَنْ قَـدْ اَخْـلَـدْتُـمْ اِلَی الْـخَـفْـضِ، وَ اَبْـعَدْتُـمْ مَـنْ
هُـوَ اَحَـقُّ بِالْبَـسْـطِ وَ الْـقَـبْـضِ، وَ خَـلَـوْتُـمْ بِالـدَّعَـۃِ،
وَ نَجَـوْتُـمْ مِـن الضِّیـقِ بِالسِّـعَـۃِ فَمَـجَجْـتُـمْ مَـا وَعَـیْتُـمْ،
وَ دَسَـعْـتُـمُ الَّـذی تَسَـوَّغْتُـمْ، فَ{اِنْ تَكْـفُـرُوا اَنْـتُـمْ وَ
مَـنْ فِـی الْاَرْضِ جَمـیعـاً فَـاِنَّ اللہَ لَـغَنِیٌّ حَـمـیدٌ}(۳۳) اَلا، وَ قَـدْ قُـلْـتُ عَلیٰ
مَـعْـرِفَـۃٍ مِـنّـی بِالْـخَذْلَـۃِ الَّـتـی خَامَـرَتْـكُـمْ، وَ
الْـغَـدْرَةِ الَّـتِـی اسْتَـشْعَـرَتْهـا قُـلُوبُـكُـمْ، وَ لٰكِـنَّهـا
فَـیضَـۃُ النَّـفْـسِ، وَ نَـفْثَـۃُ الْـغَـیْضِ(الـغَـیظِ)، وَ خَـوزُ
الْـقَـنـاةِ، وَ بَثَّـۃُ الـصَّـدْرِ، وَ تَـقْدِمَـۃُ الْـحُـجَّـۃِ،
آگاہ رہو گویا میں دیكھ رہى كہ تم ذلت اور پستى كى طرف جارہے ہو،
اور اس ہستی (امام علی) كو جو امور مسلمین کو سنبھالنے کی اہلیت رکھتا تھا اسے خود
سے دور ہٹا دیا، اور تم لوگ ایک گوشے میں بیٹھ كر عیش و عشرت میں مشغول ہوگئے ہو،
اور اپنی سنگین ذمہ داری اور مسئولیت کو چھوڑ كر راحت طلبى كے چھوٹے محیط میں چلے
گئے ہو، ہاں جو كچھ تمھارے اندر تھا اسے تم نے ظاہر كردیا ہے، اور جو كچھ پى چكے
تھے اسے اُگل دیا ہے، لیكن مت بھولو کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا: آگاہ رہو اگر تم اور
تمام روئے زمین كے لوگ كافر بھی ہوجائیں (تب بھی خدا تعالیٰ کو کوئی نقصان نہیں
پہنچا سکتے کیونکہ) خدا تعالیٰ بے نیاز اور لائق تعریف ہے، جان لو، آگاہ ہو جائو!
جو كچھ مجھے كہنا چاھیے تھا میں نے كہہ دیا، حالانكہ مجھے اچھی طرح سے معلوم ہے كہ
حق کی نصرت نہ کرنا تمھارے خون میں شامل ہے، اور عہد شکنی نے تمھاری کے دلوں کو
پتھر بنا دیا ہے، تمہارے منصوبے مجھ سے مخفى نہیں، لیكن كیا كروں دل میں ایک درد
تھا (میں نے اپنے اندر ایک شدید مسئولیت کا احساس کیا) جس کی وجہ سے میں نے اپنے
اندر کے غموں میں سے کے کچھ غم ظاہر کیا، اور جو غمگینی میرے سینے کے اندر موج مار
رہی تھی، اسے نکال دیا، تاکے تم پر حجت تمام ہو جائے.
عاقبت غصب
فدک:
فَـدُونَـكُـمُـوهـا
فَاحْـتَـقِبُـوهـا دَبْـرَةَ الـظَّهْـرِ نَـقِیْـبَـۃَ(نَـقِبَۃَ)، الْـخُـفِّ،
بـاقِـیۃَ الْعَـارِ، مَـوْسُومَـۃً بِـغَـضَبِ اللہِ کَـوَشَنـارِ الْاَبَـدِ،
مَـوْصُـولَـۃً بِنـارِ اللہِ الْمُـوقَـدَةِ الَّـتِی تَـطَّـلِـعُ عَـلَی
الْاَفْـئِـدَةَ فَبِـعَـیْـنِ اللہِ مـا تَـفْعَـلُـونَ، {وَ سَـیـعْلَـمُ
الَّـذینَ ظَـلَـمُـوا اَیَّ مُنْـقَـلَـبٍ یَنْـقَلِبُـونَ}(۳۴) وَ اَنَـا ابْـنَـۃُ نَـذیـرٍ
لَـكُـمْ بَـیْـنَ یَـدَیْ عَـذابٌ شَـدیـدٌ، فَاعْمَـلُـوا {اِنَّـا
عـامِـلُـونَ، وَ انْـتَـظِـرُوا اِنَّـا مُـنْـتَـظِـرُونَ}(۳۵)
اب اگر ایسا ہے تو فدک اور خلافت
اپنے پاس سنبھال کر رکھو كو! لیكن یاد رکھو کہ یہ ایسی چیز نہیں ہے کہ ہمیشہ
تمھارے پاس رہے گی، اس کی پشت زخمی ہے، اور اس کے پائوں کا تلوا ٹوٹا ہوا ہے، اور
اس کی ذلت و خواری ہمیشہ تمہارے دامن پہ باقى رہ جائے گی، اللہ تعالى كا غضب اس کی
علامت ہے، اور اس كى جزا جہنم كى آگ کے سوا کچھ نہیں، یہ مت بھولو جو بھی تم کام
انجام دیتے ہو اللہ تعالى اس سے آگاہ ہے، بہت جلد ظالمین جان جائیں گے کہ وہ کس کی
طرف پلٹ کر جائیں گے! اور میں تمہارے اس نبى كى بیٹى ہوں كہ جو تمہیں اللہ كے
دردناک عذاب سے ڈراتے تھے، جو كچھ كرسكتے ہو وہ کرو! ہم بھی انجام دینگے، تم بھى
انتظار كرو ہم بھى منتظر ہیں.
حوالاجات:
۱: آموزهہای هفت گانہ خطبہ تاریخی
حضرت زہراء ویب سائٹ آیت اللہ
مکارم شیرازی.
اہمیت ضرورت و جایگاه امامت در
نگاه
حضرت صدیق طاہره، میرزایی،
ص۴۱ و ۴۵.
دری ابیانہ، «ویژگیہای خطابی
خطبہ
فدکیہ، ندری ابیانہ، ص۱۳۳.
بلاغات النساء، ابن طیفور، ۱۳۲۶ق، ص۱۶.
۲: معجم البلدان،
یاقوت الحموی، ۱۹۹۵م،
ذیل ماده فدک، ص۲۳۸.
معجم معالم الحجاز، ۱۴۳۱ق، ج۲، ص۲۰۶-۲۰۵ اور ج۷، ص۲۳.
زندگانی فاطمہ زہرا، شہیدی، ص۹۷_۹۶
۳: سوۃ حشر، آیت
۶-۷
۴: فروغ ولایت، ۱۳۸۰ش، ص۲۱۸.
امتاع الأسماع، مقریزی، ۱۴۲۰ق،
ج۱، ص۳۲۵.
۵: سورۃ اسراء،
آیت ۲۶.
۶: التبیان،
شیخ طوسی، دار احیاء التراث
العربی، ج۶، ص۴۶۸.
مجمع البیان، طبرسی، ۱۳۷۲ش، ج۶،
ص۶۳۳-۶۳۴.
شواهد التنزیل، حسکانی، ۱۴۱۱ق،
ج۱، ص۴۳۸-۴۳۹.
الدر المنثور، سیوطی، ۱۴۰۴ق، ج۴، ص۱۷۷.
۷: فتوح
البلدان، بلاذری، ۱۹۵۶م، ص۴۰-۴۱.
الاحتجاج، طبرسی، ۱۴۰۳ق، ج۱، ص۹۱.
اصول کافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۵۴۳.
۸: السیرة
الحلبیہ، ۱۹۷۱م، ج۳، ص۵۱۲.
فتوح البلدان، بلاذری، ۱۹۵۶م، ص۴۰.
۹: کشف الغمہ،
اربلی، ۱۴۲۱ق، ج۱،
ص۳۵۳-۳۶۴.
بلاغات النساء، ابن طیفور ۱۳۲۶ق، ص۱۶.
خطبۃ اللمۃ سندها و مکانتها عند
الشیعہ الویری، ص ۱۵
۱۰: بحار
الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۲۹، ص۲۱۵.
۱۱: من لا یحضرہ
الفقیہ، ۱۴۰۴ق، ج۳،
ص۵۶۷-۵۶۸.
۱۲: خطبہ حضرت
زہرا علیکا السلام،
منتظری، ۱۳۸۵ش، ص۳۷.
بلاغات النساء، ابن طیفور، ۱۳۲۶ق، ص۱۷-۲۵
۱۳: زندگانی
فاطمہ زهرا، شہیدی،
۱۳۶۲ش، ص۱۲۲.
۱۴: خطبہ های
فاطمی ص۵۱.
۱۵: زندگانی
فاطمہ زہرا علیہا السلام، شہیدی، ص ۱۲۶-۱۳۵
۱۶: سورۃ آل
عمران آیت ۱۰۲
۱۷: سورۃ فاطر،
آیت ۲۸
۱۸: سورۃ توبہ، ۱۲۸
۱۹: سورۃ آل
عمران، آیت۱۰۳
۲۰: سورۃ مائدہ،
آیت ۶۴
۲۱: سورۃ توبہ،
آیت ۴۹
۲۲: سورۃ آل
عمران، آیت ۸۵
۲۳: سورۃ مائدہ،
آیت ۵۰
۲۴: سورۃ نمل،
آیت۱۶
۲۵: سورۃ مریم، ۵-۶
۲۶: سورۃ انفال،
آیت ۷۵
۲۷: سورۃ نساء،
آیت ۱۱
۲۸: سورۃ بقرہ،
آیت ۱۸۰
۲۹: سورۃ انعام،
آیت ۶۷
۳۰: سورۃ ہود،
آیت ۳۹
۳۱: سورۃ آل
عمران، آیت ۱۴۴
۳۲: سورۃ توبہ،
آیت ۱۳
۳۳: سورۃ
ابراہیم، آیت ۸
۳۴: سورۃ شعراء،
آیت ۲۲۷
۳۵: سورۃ ہود،
آیت ۱۲۱-۱۲۲