بعض لوگوں نے اپنی خود ساختہ شریعت کے مطابق سید زادی کا غیر سید سے نکاح باطل قرار دیا ہے، جبکہ دین اسلام، بالخصوص مکتبِ اہل بیتؑ میں، اس کی کوئی ممانعت نہیں۔ سید زادی چاہے ہاشمی ہو یا فاطمی، اس کا نکاح کسی بھی مومن مسلمان سے ہوسکتا ہے۔

اس کی واضح دلیل خود قرآن کریم ہے، جیسا کہ ذکر ہوا ہے:
وَ ما كانَ لِمُؤْمِنٍ وَ لا مُؤْمِنَةٍ إِذا
قَضَى اللَّهُ وَ رَسُولُهُ أَمْراً أَنْ يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ...
فَلَمَّا قَضى زَيْدٌ مِنْها وَطَراً
زَوَّجْناكَها [1]
یہ آیات حضرت زینب بنت جحش، جو رسول اللہﷺ کی پھوپھی زاد اور سیدہ تھیں، کے نکاح کے
بارے میں نازل ہوئیں، جب نبی اکرمﷺ نے ان کا نکاح زید بن حارثہ سے کرایا، جو کہ آزاد
کردہ غلام اور غیر سید تھے۔ اگر سیدہ کا غیر سید سے نکاح ممنوع ہوتا تو اللہ اور اس
کے رسول کبھی اس کی تائید نہ کرتے۔
امام جعفر صادقؑ سے صحیح السند روایت میں منقول ہے کہ انہوں نے اپنی بیٹی کا نکاح ایک
اموی شخص سے کیا۔ امامؑ نے اس پر دلیل دیتے ہوئے فرمایا کہ نبی اکرمﷺ کی بیٹیاں حضرت
عثمانؓ سے بیاہی گئیں، جو کہ اموی تھے، لہٰذا میری بیٹی کا نکاح بھی اموی شخص سے ہوسکتا
ہے، بشرطیکہ وہ اہل بیتؑ کا پیروکار ہو، کیونکہ دیگر روایات میں یہ تصریح موجود ہے
کہ ناصبی کے ساتھ نکاح جائز نہیں۔
اسی طرح، الکافی میں روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے اپنے چچا
عبدالمطلب کی بیٹی، ضبۃ بنت عبدالمطلب، جو کہ ہاشمیہ سادات میں سے تھیں، کا نکاح جناب
مقدادؓ سے کیا، جو کہ غیر سید تھے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ دین اسلام میں نکاح کے معاملے
میں ہم کفو ہونے کی بنیاد ایمان اور دینداری ہے، نہ کہ نسبی برتری یا سید ہونا۔ لہٰذا،
نکاح کے فقہی احکام کو خمس و صدقات کے احکام پر قیاس نہیں کیا جا سکتا۔
دینِ اسلام کے مقرر کردہ احکام کے برخلاف، خود ساختہ نظریات
گھڑ کر انہیں دین سے منسوب کرنا بدعت ہے، جس کی شدید مذمت قرآن و حدیث میں موجود ہے۔
نبی اکرمﷺ کی شریعت کے محافظ اور حقیقی ترجمان آئمہ اہل بیتؑ ہیں، جنہوں نے ہمیشہ اسلامی
تعلیمات کو واضح اور محفوظ رکھا۔ ہمارے معاشرے میں رائج بعض غیر اسلامی روایات میں
سے ایک یہ بھی ہے کہ سید زادی کا نکاح غیر سید سے ناجائز سمجھا جاتا ہے۔ بعض لوگ اسے
احترامِ سادات سے تعبیر کرتے ہیں، حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔
دینِ اسلام نے نکاح میں ہم کفو ہونے کا معیار ایمان اور
تقویٰ کو قرار دیا ہے۔ اسی اصول کے تحت نبی اکرمﷺ نے ہاشمی عورتوں کا نکاح غلاموں سے
کرایا، اور قبائلی تفاخر کا خاتمہ کرتے ہوئے انصار کی بیٹیوں کا نکاح افریقی غلاموں
سے بھی کرایا۔ الکافی میں امام باقرؑ کی روایت کے مطابق، نبی اکرمﷺ نے جویبرؓ کا نکاح
ذلفاء انصاریہ سے کرایا۔[2] اسی
طرح، آئمہ اہل بیتؑ نے کنیزوں سے نکاح کیا، حتیٰ کہ سات آئمہؑ کی والدہ گرامی کنیز
تھیں، جو کہ معاشرتی حیثیت میں کم تر سمجھی جاتی تھیں، مگر آئمہؑ نے ان کے تقویٰ اور
عفت کو دیکھتے ہوئے انہیں منتخب کیا، اور اللہ تعالیٰ نے انہی سے معصوم ہستیوں کو پیدا
فرمایا۔
ذیل میں چند مستند احادیث پیش کی جاتی ہیں، جن سے ثابت ہوتا
ہے کہ آئمہ اہل بیتؑ کی بعض بیٹیاں غیر سادات سے بیاہی گئیں اور آئمہؑ نے خود بھی اس
عمل کو انجام دیا۔
امام صادقؑ کی بیٹی کا اموی سے نکاح:
جناب کشی نے رجال الکشی میں روایت نقل کی ہے
جسے آیت اللہ خوئی اور دیگر بزرگان نے صحیح السند حدیث قرار دیا ہے۔ امام جعفر صادقؑ
سے منقول اس روایت کی سند اور مضمونِ حدیث
مع ترجمہ پیش کیا جاتا ہے:
مُحَمَّدُ بْنُ مَسْعُودٍ، قَالَ كَتَبَ إِلَيَّ الْفَضْلُ، قَالَ حَدَّثَنَا
ابْنُ أَبِي عُمَيْرٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِ الْحَمِيدِ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ
بْنِ جَابِرٍ، قَالَ: قَدِمَ أَبُو إِسْحَاقَ (ع) مِنْ مَكَّةَ، فَذُكِرَ لَهُ قَتْلُ
الْمُعَلَّى بْنِ خُنَيْسٍ: قَالَ، فَقَامَ مُغْضَباً يَجُرُّ ثَوْبَهُ، فَقَالَ لَهُ
إِسْمَاعِيلُ ابْنُهُ يَا أَبَتِ أَيْنَ تَذْهَبُ ؟ قَالَ لَوْ كَانَتْ نَازِلَةٌ لَأَقْدَمْتُ
عَلَيْهَا، فَجَاء حَتَّى دَخَلَ عَلَى دَاوُدَ بْنِ عَلِيٍّ، فَقَالَ لَهُ: يَا دَاوُدُ
لَقَدْ أَتَيْتَ ذَنْباً لَا يَغْفِرُهُ اللَّهُ لَكَ، قَالَ: وَمَا ذَاكَ الذَّنْبُ
؟ قَالَ: قَتَلْتَ رَجُلًا مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ ثُمَّ مَكَثَ سَاعَةً ثُمَّ قَالَ
إِنْ شَاءَ اللَّهُ، فَقَالَ لَهُ دَاوُدُ : وَأَنْتَ قَدْ أَتَيْتَ ذَنْباً لَا يَغْفِرُهُ
اللَّهُ لَكَ! قَالَ : وَمَا ذَاكَ الذَّنْبُ؟ قَالَ: زَوَّجْتَ ابْنَتَكَ فُلَاناً
الْأُمَوِيَّ، قَالَ: إِنْ كُنْتُ زَوَّجْتُ فُلَاناً الْأُمَوِيَّ فَقَدْ زَوَّجَ
رَسُولُ اللَّهِ (ص) عُثْمَانَ، وَ لِي بِرَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ، قَالَ : مَا أَنَا
قَتَلْتُهُ، قَالَ: فَمَنْ قَتَلَهُ ؟ قَالَ : قَتَلَهُ السِّيرَافِيُّ، قَالَ فَأَقِدْنَا
مِنْهُ! قَالَ، فَلَمَّا كَانَ مِنَ الْغَدِ غَدَا إِلَى السِّيرَافِيِّ فَأَخَذَهُ
فَقَتَلَهُ، فَجَعَلَ يَصِيحُ: يَا عِبَادَ اللَّهِ يَأْمُرُونِّي أَنْ أَقْتُلَ لَهُمُ
النَّاسَ وَ يَقْتُلُونِّي
اسماعیل بن جابر بیان کرتے ہیں کہ امام جعفر صادق (ابو اسحاق علیہ السلام) مکہ سے تشریف
لائے تو ان کے سامنے معلی بن خنیسؓ کے قتل کا تذکرہ کیا گیا ، راوی کہتا ہے کہ یہ سن
کر امامؑ حالت غضب میں اپنی چارد کو زمین پر روندتے ہوئے نکل کھڑے ہوئے ، امامؑ کے
فرزند اسماعیل نے ان سے کہا : بابا جان کہاں جا رہے ہیں؟ امامؑ نے فرمایا: اگر کوئی
بلاء ٹوٹ پڑتی تو میں اس کی طرف بھی قدم بڑھاتاا،
امامؑ نکلے اور داؤد بن علی (عباسی) کے دربار میں داخل ہوئے اور فرمایا: اے داؤد تم
نے ایسا گناہ انجام دیا ہے جسے اللہ کبھی معاف نہیں کرے گا، داؤد نے کہا:وہ کونسا گناہ ہے؟ امامؑ نے فرمایا: تم نے اہل جنّت
سے تعلق رکھنے والے ایک شخص کو قتل کیا ہے ، پھر کچھ لحظہ امامؑ نے توقف کیا پھر فرمایا: ان شاء اللہ، داؤد نے کہا: آپ نے بھی ایک ایسا گناہ کیا ہے جس سے اللہ
مغفرت نہیں فرمائے گا، امامؑ نے فرمایا: وہ کونسا گناہ ہے؟ داؤد نے کہا: آپؑ نے اپنی
بیٹی کی شادی فلاں اموی سے کر دی ہے!! امامؑ نے فرمایا: اگر میں نے فلاں اموی سے اپنی
بیٹی کی شادی کی ہے تو رسول اللہﷺ نے بھی تو حضرت عثمان (خلیفہ سوم) سے اپنی بیٹی کی
شادی کی تھی، میرے لیے رسول اللہﷺ کی شخصیت اسوہ ہے، داؤد نے کہا: میں نے معلّیؓ کو
قتل نہیں کیا، امامؑ نے فرمایا: پھر کس نے قتل کیا ہے؟ داؤد نے کہا: اسے سیرافی (داؤد
کے سپاہی) نے قتل کیا ہے، امامؑ نے فرمایا: اس سے ہمیں قصاص لے کر دو، پھر جب اگلا
دن آیا تو داؤد نے سیرافی کو پکڑا اور اسے قتل کر دیا اور لوگوں میں چیخ چیخ کر کہنے
لگا : اے بندگانِ خدا! وہ مجھے حکم دیتے ہیں کہ میں ان کی خاطر لوگوں کو قتل کروں تاکہ
وہ مجھے قتل کر ڈالیں }[3]، [4]
شرح حدیث:
۱۔ رجال الکشی کی اس حدیث کے
تمام راوی ثقہ ہیں جس کی بناء پر مکتب تشیع کے تمام علماء رجال نے اسے معتبر اور صحیح
السند روایت قرار دیا ہے۔ آیت اللہ خوئیؒ اپنی کتاب معجم رجال الحدیث میں معلی بن خنیس
کے حالات میں اس حدیث کو رجال کشی سے نقل کرنے کے بعد ان الفاظ میں سند پر تبصرہ تحریر کرتے ہیں : أقول: هذه الرواية أيضا صحيحة؛
میں کہتا ہوں: یہ روایت بھی صحیح ہے۔[5] اسی طرح معروف ناقدِ رجالی آیت اللہ آصف محسنیؒ اپنے
سخت رجالی مبنی کے باوجود اس حدیث کو معتبر قرار دیتے ہوئے اپنی کتاب میں تحریر کرتے
ہیں۔ [6]
۲۔ اس واقعہ کا پس منظر یہ
ہے کہ جب عباسی دور آیا عباسی بادشاہ ابو العباس سفاح نے حضرت عبد اللہ بن عباسؒ کے
پوتے داؤد بن علی کو مدینہ کا حاکم بنا دیا جوکہ ظلم و ستم میں اپنی مثال آپ تھا۔ امام
صادقؑ کے ایک صاحب اسرار صحابی جناب معلّی بن خنیس تھے جنہیں امامؑ نے ایسی احادیث
بیان کیں تھیں جن کے لوگ متحمل نہیں ہوسکتے تھے۔ امامؑ نے پہلے خبر دی تھی کہ جو ان
مشکل احادیث کو عیاں کرے گا کہ وہ قتل کر دیا جائے گا۔ داؤد بن علی نے جناب معلّی بن
خنیسؒ کو گرفتار کر کے سیرافی نامی سپاہی کو قتل کرنے کا حکم جاری کیا اور اس نے داؤد
کے حکم پر معلی بن خنیسؓ کو قتل کر دیا۔ امام صادقؑ نے جب یہ سنا تو حالت غضب میں آپؑ
اپنے گھر سے نکلے اور والی مدینہ کے گھر یا دربار میں تشریف لے آئے اور اس پر غضبناک
ہوئے اورسیرافی کو قصاص میں قتل کر دیا گیا اور داؤد بن علی کے خلاف بددعا کی جس سے
وہ رات کے وقت ہلاک ہو گیا۔
۳۔ اس حدیث مبارک میں سید زادی
نہیں بلکہ امام زادی کے نکاح کے بارے میں امام صادقؑ کے نظریہ اور عباسی ظالمین کے
نظریہ کا تذکرہ وارد ہوا ہے۔ امام صادقؑ کا نظریہ یہ ہے کہ امام زادی اور بدرجہ اولی
سید زادی کا نکاح اموی شخص سے ہو سکتا ہے جوکہ نہ سید ہے اور نہ ہاشمی بلکہ ایسے قبیلے
سے ہے جو امام حسینؑ کا قاتل ہے اگرچے یہ اموی نیک و پاکیزہ اور محب اہل بیتؑ تھا۔
وہ لوگ جو سمجھتے ہیں کہ سید زادی کا نکاح غیر سید سے نہیں ہو سکتا وہ عباسی ظالمین
کے پیچھے چلنے والے ہیں نہ کہ امام جفعر صادقؑ کے ۔
۴۔ امام صادقؑ نے اس کی دلیل
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کا عمل قرار دیا کہ انہوں نے ایک اموی حضرت عثمان سے
اپنی بیٹیوں کی شادیاں کیں اگرچے ہمارے معاشرے میں رائج قول یہ ہے کہ یہ بیٹیاں لے
پالک تھیں لیکن احادیثِ اہل بیتؑ کے مطابق لے پالک نہیں تھیں۔
۵۔ اس حدیث مبارک کو تمام علماء
رجال خصوصا آیت اللہ العظمی سید ابو القاسم خوئی نے معجم رجال الحدیث میں واضح طور
پر صحیح السند قرار دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امام خمینی اور آیت اللہ خوئی کے داماد اور
دیگر سادات مراجع عظام کے متعدد داماد غیر سید ہیں۔
پس، سیدہ اور غیر سید کے نکاح کو ناجائز سمجھنا دین میں
بدعت ہے، جس کی کوئی شرعی بنیاد نہیں۔
[1] سوره احزاب کی آیات 36 تا 37
[2] ۔ کلینی، محمد بن
یعقوب، الکافی، ج ۱۰، ص ۶۱۳
[3] ۔ کشی، محمد بن عمر،
رجال الکشی، ص ۳۸۰، معلی بن خنیس، حدیث: ۷۱۱
[4] ۔ خوئی ، سید ابو
القاسم ، معجم رجال الحدیث، ج ۱۹، ص ۲۶۱
[5] ۔ خوئی ، سید ابو
القاسم ، معجم رجال الحدیث، ج ۱۹، ص ۲۶۱
[6] ۔ محسنی، محمد آصف،
معجم الاحادیث المعتبرۃ، ج۱، ص ۱۹۲