امام ضامن کا تصور: دینی اور معاشرتی تجزیہ

 


امام ضامن کی رسم کا تعارف:

ہمارے معاشرے (برصغیر) میں سفر پر روانگی سے قبل "امام ضامن" کے عنوان سے ایک مشہور رسم انجام دی جاتی ہے، جس میں کوئی سکہ یا رقم کپڑے میں باندھ کر بازو پر باندھی جاتی ہے۔ اس عمل کا مقصد مسافر کے لیے تحفظ، خیریت اور سلامتی کی دعا ہوتی ہے۔ لوگ اسے بطور علامت، عقیدت یا روحانی سہارا سمجھتے ہیں، جو حضرت امام علی رضا علیہ السلام سے منسوب ہے۔


 دینی تعلیمات کی روشنی میں اس رسم کا جائزہ:

اسلام ایک ایسا دین ہے جو عمل کی بنیاد کتاب اللہ، سنتِ معصومینؑ، عقل، اور اجماع پر رکھتا ہے۔ کوئی بھی عمل اگر دین کا حصہ سمجھ کر کیا جائے، تو اس کے لیے شرعی دلیل یا نص کا ہونا ضروری ہے۔ "امام ضامن" کے نام پر بازو پر سکہ باندھنے کی رسم کے لیے قرآن، سنت، یا ائمہؑ کی سیرت میں کوئی مستند دلیل یا عملی نظیر موجود نہیں۔ نہ ہی نبی اکرم ﷺ اور نہ ہی آئمہ معصومینؑ نے صدقہ یا ہدیہ اس انداز سے باندھ کر پہنا اور نہ ہی کسی کو پہنایا۔ 

امام رضا علیہ السلام اور ضمانت کا مفہوم:

۱۔ ہرن کی ضمانت والا واقعہ:

امام رضا علیہ السلام کی زندگی سے منسوب سب سے مشہور واقعہ "ضامن آہو" کا ہے، جس کے مطابق امامؑ نے ایک ہرن کی شکاری سے ضمانت لی تاکہ وہ اپنے بچوں کو دودھ پلا کر واپس آ جائے۔ [1]

(اگرچہ یہ واقعہ اس مخصوص شکل میں شیعہ منابع میں موجود نہیں ہے، لیکن عوام الناس میں جو روایت مشہور ہے، اس سے مشابہ حکایات بعض معجزات میں پائی جاتی ہیں جو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم[2] ، امام سجادؑ[3]، اور امام صادقؑ  [4]سے منسوب ہیں۔)


۲۔ ہرنی  کا امام رضا علیہ السلام کے حرم میں پناہ لینا:

شیخ صدوق نے عیون اخبار الرضا میں ایک پُر تاثیر حکایت بیان کی ہے، جہاں ایک ہرنی، شکار کے خوف سے امام رضا علیہ السلام کے حرم کی دیوار سے لپٹ جاتی ہے، اور چیتا اس کی حرمت میں حملہ کرنے سے رک جاتا ہے۔ یہ منظر ایک سخت دل شکاری کے دل کو بدل دیتا ہے، جو توبہ کرتا ہے، زائرین کو ایذا نہ دینے کا عہد کرتا ہے اور اپنے باقی ایام زیارت و دعا میں گزارتا ہے۔ اس نے بارہا حرم کی آستانہ مقدس پر حاجات مانگیں اور ہر بار بارگاہِ الٰہی سے فیض پایا۔
یہ حکایت نہ صرف حرم کی کرامت کو ظاہر کرتی ہے بلکہ امام رضا علیہ السلام کے مرقد کی پناہ میں ملنے والے سکون و قبولیتِ دعا کی جھلک پیش کرتی ہے۔[5] 

۳۔  امام علیہ السلام کی ضمانت کس طرح حاصل ہو؟:

امام رضا علیہ السلام کی ضمانت کا اصل اور معتبر مفہوم اس حدیث میں واضح ہوتا ہے جو مشکاة الأنوار میں موجود ہے:

عَنِ اَلرِّضَا عَلَيْهِ اَلسَّلاَمُ قَالَ لِعَلِيِّ بْنِ يَقْطِينٍ اِضْمَنْ لِي خَصْلَة أَضْمَنْ لَكَ ثَلاَثا فَقَالَ جُعِلْتُ فِدَاكَ وَ مَا اَلْخَصْلَةُ اَلَّتِي أَضْمَنُهَا لَكَ وَ مَا اَلثَّلاَثُ اَلَّتِي تَضْمَنُ لِي قَالَ فَقَالَ أَمَّا اَلثَّلاَثُ اَلَّتِي أَضْمَنُ لَكَ أَنْ لاَ يُصِيبَكَ حَرُّ اَلْحَدِيدِ أَبَدا بِقَتْلٍ وَ لاَ فَاقَةٍ وَ لاَ سِجْنٍ حَبْسٍ قَالَ فَقَالَ عَلِيٌّ وَ مَا اَلْخَصْلَةُ اَلَّتِي أَضْمَنُهَا لَكَ قَالَ فَقَالَ تَضْمَنُ لِي أَنْ لاَ يَأْتِيَكَ وَلِيٌّ أَبَدا إِلاَّ أَكْرَمْتَهُ قَالَ فَضَمِنَ عَلِيٌّ اَلْخَصْلَةَ وَ ضَمِنَ لَهُ أَبُو اَلْحَسَنِ اَلثَّلاَثَ [6]

ترجمہ: حضرت امام رضا علیہ السلام نے علی بن یقطین سے فرمایا:

"تم میرے لیے ایک خصلت (وعدہ، عہد) کی ضمانت لو، تو میں تمہارے لیے تین چیزوں کی ضمانت لیتا ہوں۔"

علی بن یقطین نے عرض کیا: "میں آپ پر قربان جاؤں! وہ کون سی خصلت ہے جس کی میں آپ کو ضمانت دوں، اور وہ کون سی تین چیزیں ہیں جن کی آپ مجھے ضمانت دیں گے؟"

تو امام علیہ السلام نے فرمایا:

"جن تین چیزوں کی میں تمہیں ضمانت دیتا ہوں وہ یہ ہیں:

۱۔تمہیں کبھی بھی آہنی چیز کی گرمی (یعنی تلوار یا کسی اور ہتھیار سے قتل یا سزا) نہیں پہنچے گی۔

۲۔ تمہیں فقر و محتاجی کا سامنا نہیں ہوگا۔

۳۔ تمہیں قید و بند یا قید خانہ کی سختی میں مبتلا نہیں کیا جائے گا۔"

علی بن یقطین نے عرض کیا: "وہ کون سی خصلت ہے جس کی میں ضمانت دوں؟"

امام علیہ السلام نے فرمایا: "میری ضمانت کی شرط یہ ہے کہ: میرا کوئی بھی شیعہ (اہلبیت کو دوست رکھنے والا) جب تمہارے پاس آئے تو تم ہر حال میں اس کی عزت کرو، اس کی تکریم کرو۔"

تو علی بن یقطین نے اس خصلت کی ضمانت دے دی، اور امام ابو الحسن (علیہ السلام) نے اس کے بدلے میں وہ تین چیزیں اس کے لیے ضمانت میں لے لیں۔


امام ضامن کے عنوان سے سکہ یا رقم  دینے کی شرعی حیثیت:
اگر کوئی شخص کسی کو سکہ یا رقم کپڑے میں باندھ کر دیتا ہے، تو وہ:

نہ خمس ہے نہ زکوٰۃ، نہ نذرِ واجب ہے نہ کفارہ

بلکہ ایک عرفی ہدیہ یا اظہارِ خیرخواہی سمجھا جاتا ہے۔ شریعت میں عرفِ عقلاء کو اعتبار حاصل ہے بشرطیکہ وہ دینی احکام سے متصادم نہ ہو۔

لہٰذا اگر کوئی شخص صدقے کی نیت سے کچھ رقم کسی کو دے دے، اور وہ شخص اسے اپنی مرضی سے کسی حلال مصرف میں خرچ کرے، تو یہ جائز ہے۔ جیسا کہ معاشروں میں مختلف طریقے اختیار کیے جاتے ہیں:

بعض لوگ اس رقم کو صدقہ کر دیتے ہیں

بعض اس سے نیاز دلواتے ہیں

بعض سید کو کھانا کھلاتے ہیں

یہ تمام افعال جائز ہیں ۔

یہ عمل کسی ثقافتی روایت یا عرفی علامت کے طور پر انجام دیا جائے، اور اسے دین نہ سمجھا جائے، تو وہ حرام نہیں، البتہ قابلِ ترجیح بھی نہیں جب تک کوئی فائدہ ثابت نہ ہو۔ البتہ اگر حسن اخلاق، صلح رحمی یا ثقافتی طور پر اچھا عمل سمجھا جاتا ہے تو اس عمل میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ البتہ واضح رہے کہ منابع دینی میں ایسا کوئی عمل ہمیں نہیں ملتا۔



[1]۔ میرآقایی، ضامن آهو و تجلی آن در شعر فارسی، ۱۳۹۱ش

[2] ۔ طبرسی، فضل بن حسن، اعلام الوری، صفحہ ۲۵

[3] ۔ قطب الدین راوندی، الخرائج و الجرائح، ج ۱، ص ۲۶۱

[4] ۔ صفار، محمد بن حسن، بصائر الدرجات، ص ۳۴۹

[5] ۔ صدوق، عیون اخبار الرضا، ۱۳۷۸ق، ج۲، ص۲۰۴

[6] ۔ مشکاة الأنوار في غرر الأخبار، ج 1، ص 403