
زعفر جِن کے بارے میں
مشہور ہے کہ کربلا کے وقت جِنّات کے گروہ کا سردار تھا اور اس نے امام حسینؑ کو
مدد کی پیشکش کی تھی، لیکن امامؑ نے اسے قبول نہیں کیا۔
زعفر جن کی کربلا میں
موجودگی اور اس کی کہانی کربلا کے ان واقعات میں سے ہے جن پر تاریخی اعتبار سے
شدید بحث ہے، کیونکہ معتبر شیعہ مصادر میں اس کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔
سب سے پہلے ملا حسین
واعظ کاشفی (جنہیں شہید مطہری نے گرگٹ سے تشبیہ دی ہے) نے اپنی کتاب روضۃ الشہداء
میں اس کے بارے میں ایک تفصیلی داستان نقل کی ہے۔
)کاشفی، روضة الشهداء، ۱۳۸۲ش، ص۴۳۱(
واعظ کاشفی اور واقعہ
کربلا کے درمیان کئی سالوں کا فاصلہ ہے، اور انہوں نے یہ بات کہاں سے نقل کی نہیں
معلوم نہ ہی کوئی سند زکر ہے۔ اکثر محققین اس کتاب کے مصنف کو اس داستان کا پہلا
ناقل اور خالق قرار دیتے ہیں۔
اس کے بر خلاف محدث
نوری نے اپنی کتاب لؤلؤ و مرجان (جو منبر اور ذاکرین میں اخلاص پر لکھی) میں زعفر
جن کا انکار کیا اور اسے تحریفات عاشورا میں سے قرار دیا ہے۔
)نوری، لؤلؤ و مرجان، ۱۳۸۸ش، ص۲۵۲(
اسی طرح شہید مرتضیٰ
مطہری نے اس قصے کو عاشورا میں داخل کی گئی تحریفات میں شمار کیا ہے اور اسے کاشفی
کی داستان سرائی قرار دیا ہے۔
)مطهری، حماسه حسینی، ۱۳۷۹ش، ج۱، ص۸۷(
امام حسینؑ اور جنات کے
درمیان واحد معروف روایت علامہ مجلسی نے بحارالانوار میں شیخ مفید سے نقل کی ہے،
جس میں امام صادقؑ سے روایت ہے کہ امام حسینؑ جب مدینہ سے روانہ ہوئے تو کچھ فرشتے
اور جنات ان سے ملاقات کے لیے آئے اور مدد کی پیشکش کی، لیکن امامؑ نے اس مدد کو
قبول نہیں کیا۔
)مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۴۴، ص۳۳۰(
اس روایت میں نہ کوئی
خاص نام، اور نہ ہی وقت یا جگہ کی وضاحت موجود ہے۔
بعض لوگوں کے درمیان
آیت اللہ بروجردی اور زعفر جن کے تعلق کے حوالے سے کئی داستانیں مشہور ہو گئی ہیں،
خاص طور پر زعفر جن کی موت اور اس کے ایصالِ ثواب کے لیے آیت اللہ بروجردی کی جانب
سے مجلسِ ختم کے انعقاد کے بارے میں مختلف باتیں نقل کی جاتی ہیں۔ تاہم تحقیقات سے
معلوم ہوتا ہے کہ ان باتوں کی کوئی معتبر سند موجود نہیں، اور آیت اللہ بروجردی کی
سوانح عمری یا اُن سے متعلق کتابوں میں اس موضوع پر کوئی ذکر نہیں ملتا۔
چونکہ آیت اللہ بروجردی
اور زعفر جن کے تعلق پر کوئی معتبر دلیل موجود نہیں، اس لیے غالب گمان یہی ہے کہ
عوام نے اس معروف مرجع تقلید کو ایک دوسرے ہم نام شخص سے خلط کر دیا گیا ہے۔ دراصل
سید علیاصغر شفیع جابلقی بروجردی، جو بروجرد کے علماء میں سے تھے اور کتاب طرائف
المقال کے مصنف ہیں، اس کتاب میں زعفر جن کا ذکر کرتے ہیں اور اپنے ایک قابلِ
اعتماد استاد سے نقل کرتے ہیں کہ زعفر جن واقعۂ کربلا میں حاضر ہوا تھا۔
)بروجردی، طرائف المقال،
۱۴۱۰ق، ج۲، ص۶۷۹(
زعفر جن کی آمد کے بارے
میں کتاب "موسوعہ کلماتِ امام حسین علیہ السلام" میں معالی السبطین اور
اسرار الشھادۃ کے حوالے سے روایت موجود ہے اور متعدد کتب میں ذکر بھی ملتا ہے،
بلکہ بعض نے تو اس موضوع پر مکمل کتابیں تصنیف کی ہیں۔
مصنف کے حوالے کے ساتھ
واقعہ کو زکر کرنے میں حرج نہیں ہے۔ ذاکر بری الزمہ ہوجائے گا۔
ہمارا یہاں مقصد محض
تحقیق ہے، اور تحقیق کا تقاضا یہی ہے کہ اصل اور معتبر ماخذ کو بنیاد بنایا جائے۔
مرتضی مطہری کہتے ہیں:
"مرحوم ملا آقا دربندی نے روضۃ الشہداء میں موجود تمام باتوں کو، اور بھی بہت
سی دوسری چیزوں کو اکٹھا کیا اور سب کو یکجا کر کے ایک کتاب لکھی جس کا نام اسرار
الشہادۃ رکھا۔ واقعاً اس کتاب کے مندرجات انسان کو مجبور کر دیتے ہیں کہ وہ اسلام
پر روئے۔"
)مطهری، حماسه حسینی، ۱۴۰۲ش، ج۱، ص۸۸(
محدث نوری اور آیت اللہ
بزرگ تہرانی کے بقول، اسرار الشہادۃ میں اس قدر واضح جھوٹ اور بے بنیاد روایات
موجود ہیں کہ اسے کسی صاحبِ علم و تحقیق کی تصنیف قرار دینا بعید از قیاس ہے۔
اسی طرح، "معالی
السبطین" کے منقولات کسی بھی اعتبار سے قابل اعتبار نہیں ہیں مگر یہ کہ وہ
اپنے مستندات کے ماخذ نقل کرے۔ نیز یہ ایسی کتابوں میں سے نہیں ہے کہ اسے اصلی
ماخذ قرار دیا جا سکے۔ اس کتاب میں صحیح اور نادرست باہم مخلوط ہیں لہذا کتاب کا
مطالعہ کرنے والے کیلئے ضروری ہے وہ غیر معتبر سے معتبر کو دقت سے جدا کرے۔
)قاضی طباطبائی، تحقیق
دربارۂ اول اربعین سید الشہداء ص 206(
زعفر جن کے حوالے سے
آیت اللہ بہجت سے بھی نسبت دی جاتی ہے، جبکہ انہوں نے ایک بوڑھے شخص کا بیان، بیان
کیا ہے۔
کربلا میں "مقام
زعفر جن" عوامی روایات یا رسوم پر مبنی ہے، نہ کہ مستند تاریخی حوالوں پر،
اور اس مقام پر کہیں تحریر نہیں ہے کہ یہ "مقام زعفر جن" ہے۔ (ہم نے
نہیں دیکھا(
جنات کا وجود برحق ہے،
قرآن کریم میں ان کا واضح ذکر موجود ہے، لہٰذا ان کے وجود سے انکار کی گنجائش
نہیں۔ بلاشبہ امام حسینؑ نہ صرف تمام انسانوں بلکہ تمام جنات کے بھی امام ہیں، اور
یہ بعید نہیں کہ جنات آپؑ کی خدمت میں حاضر ہوتے رہے ہوں۔
تاہم، واقعۂ کربلا کے
مستند تاریخی منابع میں زعفر جن نامی کسی شخصیت کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔
علامہ سید شہروز زیدی