جواب: باسمه تعالیٰ،
سجدہ کے لئے ضروری ہے کہ زمین یا زمین سے اگنے والی غیر ماکول اور غیر ملبوس چیزوں پر ہو؛ جبکہ تربت حسینی پر سجدہ کرنا سب سے زیادہ بہتر ہے۔
مذکورہ چیزوں پر سجدہ کرنا ضروری ہونا حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے ہشام بن حکم کی نقل کردہ روایت صحیحہ کی وجہ سے ہے:
أَخْبِرْنِي عَمَّا يَجُوزُ السُّجُودُ عَلَيْهِ وَ عَمَّا لَا يَجُوزُ، قَالَ: السُّجُودُ لَا يَجُوزُ إِلَّا عَلَى الْأَرْضِ أَوْ عَلَى مَا أَنْبَتَتِ الْأَرْضُ إِلَّا مَا أُكِلَ أَوْ لُبِس
ترجمہ: (میں نے امامؑ سے عرض کیا) جن چیزوں پر سجدہ کرنا جائز ہے اور جن چیزوں پر سجدہ کرنا جائز نہیں ہے ان کے بارے میں میری رہنمائی فرمائیں! امامؑ نے فرمایا: زمین اور زمین سے اگنے والی چیزوں، بشرطیکہ وہ کھائی یا پہنی نہ جاتی ہو، کے علاوہ کسی چیز پر سجدہ کرنا جائز نہیں ہے۔
) وسائل الشیعہ: ابواب مایسجد علیہ، باب ۱، حدیث۱ (
اس بارے میں عائشہ اور میمونہ سے منقول مشہور حدیث ہے کہ پیغمبر اکرم ؐ کھجور کے پتوں سے بنی چٹائی پر سجدہ کرتے تھے۔
) مسلم: کتاب الحیض، باب الاضطجاع مع الحائض فی لحاف واحد، حدیث ۱۱؛ بخاری: کتاب الصلاۃ، باب الصلاۃ علی الخمرۃ، حدیث ۳۸۱(
تربت حسینی پر سجدہ کرنا بہتر ہونے کی دلیل معاویہ بن عمار کی روایت ہے:
كَانَ لِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ علیه السلام خَرِيطَةُ دِيبَاجٍ صَفْرَاءُ فِيهَا تُرْبَةُ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ علیه السلام فَكَانَ إِذَا حَضَرَتْهُ الصَّلَاةُ صَبَّهُ عَلَى سَجَّادَتِهِ وَ سَجَدَ عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ علیه السلام: إِنَّ السُّجُودَ عَلَى تُرْبَةِ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ علیه السلام يَخْرِقُ الْحُجُبَ السَّبْعَ
ترجمہ: حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے پاس زردریشم کی ایک تھیلی تھی جس میں حضرت امام حسین علیہ السلام کی تربت رکھی ہوئی تھی۔ جب نماز کا وقت ہوتا تو آپ ؑ اسے جائے نماز پر ڈال دیتے اور اسی پر سجدہ کرتے تھے۔ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: امام حسین علیہ السلام کی تربت پر کیا ہوا سجدہ سات( آسمانی) پردوں کو چاک کرتا ہے۔
)وسائل الشیعہ: ابواب ما یسجد علیہ، باب ۱۶، حدیث ۳(
سوال 2:امام جماعت میں کن شرائط کا ہونا ضروری ہے؟
جواب: باسمه تعالیٰ،
امام جماعت کی مندرجہ ذیل شرائط ہیں:
بالغ، عاقل، حلال زادہ اور شیعہ اثنا عشری، عادل، اس کی قرائت صحیح ہو، اگر ماموم مرد ہو تو امام جماعت مرد ہو، اس پر شرعی حد جاری نہ ہوئی ہو، اگر ماموم کھڑے ہوکر نماز پڑھ رہا ہے تو امام بھی کھڑے ہوکر نماز پڑھ رہا ہو، اس کا اور ماموم کا قبلہ ایک ہو، امام کی نماز ماموم کی نظر میں صحیح ہو۔۔۔
سوال 3:کیا تقلید کرنا ضروری ہے؟
جواب:
احکامِ شریعت کا قرآن مجید اور احادیث اہل بیت علیہم السلام استخراج و استنباط کرنا آسان نہیں ہے بلکہ ایک خاص مہارت کی ضرورت ہے اور جب تک ایک شخص عربی زبان کے ادب اور اسلام کے مختلف علوم جیسے تفسیر قرآن، درایہ، حدیث شناسی ، علم رجال اور حدیث کے راویوں کی شناخت ، اصول فقہ، فقہائے اسلام کے نظریوں وغیرہ سے واقفیت میں مہارت نہ رکھتا ہو اور اصطلاحاً خداوند متعال کی توفیق سے درجہٴ اجتہاد اور فقاہت پر نہ پہنچا ہو ہرگز وہ احکامِ خداوند کو اِس کے منابع اور مصادر سے استخراج نہیں کر سکتا، اس لیے ضروری ہے کہ دین میں مہارت نہ رکھنے والا شخص ایسے شخص کی طرف جو دین میں مہارت رکھتا ہے اور specialist ہے رجوع کرے۔
سیرت عقلائیہ بھی یہی ہے کہ جاہل عالم سے رجوع کرے۔
خدا وند متعال قرآن ِ کریم میں فرماتا ہے: فَاسْأَلُواْ أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ [1]
’’ تو تم لوگ اہل ذکر سے پوچھ لو، اگر تم خود نہیں جانتے ہو۔‘‘
امام حسن عسکریؑ: ’’.. فَأمّا مَنْ کانَ مِنَ الفُقَهَاءِ، صائِناً لِنَفْسِهِ، حافِظاً لِدیٖنِهِ، مُخٰالِفاً عَلیٰ هَواهُ، مُطیٖعاً لأمْرِ مَوْلاهُ فَلِلْعَوٰامِ اَنْ یُقَلِّدُوْهُ..‘‘ [2]
’’.. فقہا اور مجتہدین میں سے جو شخص تحفظ نفس رکھتا ہو اپنے نفس کی حفاظت کرنے والا تاکہ خود کو خداوند متعال کی بندگی اور صراط مستقیم سے گمراہی اور کجروی سے محفوظ کر سکے، خداوند متعال اور اپنے مولاۓحقیقی کے امر اور فرمان کا مطیع ہو ، تو مسلمانوں پر لازم ہے کہ اس کی تقلید کریں ...‘‘
علم فقہ اسلامی علوم کے مقدس ترین علم میں سے ایک ہے جو خداوند متعال کی صحیح بندگی اور اس کے صحیح طریقے کو بیان کرتا ہے یہ علم پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور ائمہ طاہرین علیہم السلام کے زمانے میں بہت زیادہ طلاب اور قابلِ دید رونق رکھتا تھا اور پیروان دین کی اس پر خاص توجہ تھی بالخصوص امام محمد باقرؑ اور امام صادق ؑ کے زمانے میں اپنے عروج پر تھا اور بہت سے دانشور اور علما نے دین کے مختلف مسائل اور فروغ میں آپ دونوں بزرگوار کے حضور پرورش پائی ہے۔ آئمہ طاہرینؑ کے زمانے میں جو آئمہؑ سے احکام الہی کو بیان کرنے کے ذمہ دار تھے اور اپنے اصحاب اور خاص شاگردوں کے ذمے بھی اس ذمہ داری کو رکھا تھا فاضل، توان مند اور با فضیلت افراد جیسے زرارہ، محمد ابن مسلم، ابو بصیر، ابان ابن تغلب، مسائلِ حرام و حلال اور دین کے احکام کو لوگوں کے لیے بیان کرتے تھے اور خود آئمہ طاہرینؑ لوگوں کو ان کی طرف رجوع کرنے كا حكم دیتے تھے۔ سر انجام آئمہ طاہرینؑ کا زمانہ رفتہ رفتہ گزر گیا اور امام زمانہ عج کی غیبت کا زمانہ آگیا اور حلال و حرام کو بیان کرنا اور سماج کی زندگی کے نظام کو بیان اور واضح کرنے کی ذمہ داری جامع الشرائط فقہا (مجتہدین) پر آگئی اور فتویٰ اور تقلید کا موضوع ایک خاص صورت میں مجموعی طور پر رواج پا گیا۔
پس خلاصہ ِ جواب یہ ہوا کہ اگر کوئی شخص احکام کو مصادر سے استخراج کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا تو اُس پر مرجع جامع الشرائط کی تقلید کرنا واجب ہے۔
[1] ۔سورۃ النحل آیت ۴۳
[2] ۔ وسائل الشيعة (آل البيت) - الحر العاملي - ج ٢٧ - الصفحة ١٣١