👈 حکومتی بینک {اسی طرح کوئی بھی حکومتی کمپنی } آیۃ اللہ سیستانی کی نظر میں اس کا پیسہ مجہول المالک ہے اور اس میں تصرف اور اس کا اسعتمال حاکم شرع کی اجازت سے جایز ہے اس بنا پر پیسے جمع کرنے والا سود کی شرط نہ کرے ا ور جب بینک یا شرکت سود دے تو حضرت آیۃ اللہ اجازت دیتے ہیں اس مجہول المالک سود کو آپ اپنی ملکیت میں لے سکتے ہیں اس شرط کے ساتھ کے آدھے مبلغ کو آپ دیندار غریپ شیعہ کو صدقہ دیں۔
اور اگر پرائیوٹ بینک {اسی طرح پرائیوٹ کمپنی } ہو تو آپ کسی بھی عنوان سے مالک نہیں بن سکتے لیکن اگر انسان جانتا ہو کہ اس بینک یا شرکت کے {مالکین }سرمایہ دار افراد ان پیسوں کو استعمال کرنے سے راضی ہونگے اگرچہ شرعی مالک نہ ہوں تو بھی، تو اس صورت میں استعمال کرسکتے ہیں ، اور ان پیسوں سے جو چیز خریدے گا مالک ہو گا اور یہ اس صورت میں ہے کہ جب بینک یا کمپنی اس شخص کے ساتھ کوئی شرعی معاملہ انجام نہ دے لیکن اگر صحیح شرعی طریقے سے تمام شرائط کو مد نظر رکھتے ہوئے معاملہ انجام دیا جائے اور احتمال ہو کہ بینک یا کمپنی ان پیسوں کے ساتھ قرار داد کے مطابق شرعی طریقے کے مطابق معاملہ کرے گی تو سود حلال ہے۔
اگر سرمایہ غیر مسلمان کا ہو تو چاہے پرائیوٹ ہو یا حکومتی یا مشترک سود جایز ہے ، کیونکہ ان سے سود لینا جایز ہے ۔
(فتویٰ بمقابق آیت اللہ سیستانی)
👈 اگر سرمایے (ڈیپازٹ شدہ رقم) کو صحیح شرعی عقود (معاہدات) میں سے کسی ایک کے تحت ڈیپازٹ کرنے والے کی وکالت میں استعمال کیا جائے اور بینک کی جانب سے دی جانے والی اضافی رقم اور منافع اس سے حاصل ہونے والی کمائی میں سے ہو تو یہ سود نہیں ہے، بلکہ شرعی معاملے کا منافع ہے اور جائز ہے۔
(فتویٰ بمطابق آیت اللہ خامنہ ای)
(فتویٰ بمطابق آیت اللہ خامنہ ای)
👈اگر بینک کا قانون شرعی عقود کے سلسلہ میں اور عملی ریاست سے نجات دینے کی راہ پر گام زن ہو تو کوئی اشکال نہیں ہے۔
(فتویٰ بمطابق آیت اللہ مکارم شیرازی)
👈 کسی بھی بینک کے سیونگ اکاؤنٹ (بچت کھاتہ)میں رقم رکھوانے پر بینک کی طرف سے جو منافع ملتا ہے وہ سود ہونے کی وجہ سے ناجائز اور حرام ہے،بینکوں میں چوں کہ حقیقی تجارت نہیں ہوتی، بلکہ قرضوں کا لین دین ہوتا ہےاور اسی سے حاصل ہونے والا سود کسٹمرز کو فراہم کیا جاتا ہے؛ اس لیے جب تک حقیقی تجارت شرعی شرائط کا لحاظ رکھ کر نہ ہو، اس کے حلال ہونے کی کوئی صورت کسی بینک میں ممکن نہیں ؛ لہذا آپ کے لیے بینک میں بچت کھاتہ کھلواکر اس سے منافع حاصل کرنا ہرگز جائز نہیں ۔
(فتویٰ بمطابق علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن)
(فتویٰ بمطابق علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن)
.jpg)