ہماری تحقیق اور استدلال کےمطابق انسان بذات خود پاک ہیں، چاہے وہ مسلمان ہوں یا کافر ، البتہ ممکن ہے کفار کا عقیدہ ، افکار، اعمال نجس ہوں اِس لئے ان کی معنوی نجاست کی تطہیر کے لیے اسلام مطہرات میں سے ہے۔
اسلام، کافر کو پاک کرتا ہے؛ کیونکہ اسلام لانے کے باعث نجاست (معنوی و باطنی) کا موضوع ختم ہوجاتا ہے اور سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ کافر کے اسلام لانے کے بعد پیغمبر ﷺ نےاسلام لانے والے کسی کافر کو بدن یا لباس کے دھونے (جب اس پر کوئی عین نجاست مثلا خون وغیرہ نہ ہو) کا حکم نہیں دیا۔
قرآن مجید میں خداوند متعال فرماتا ہے:
ﻳَﺎ ﺃَﻳُّﻬَﺎ ﺍﻟَّﺬِﻳﻦَ ﺁﻣَﻨُﻮﺍ ﺇِﻧَّﻤَﺎ ﺍﻟْﻤُﺸْﺮِﻛُﻮﻥَ ﻧَﺠَﺲٌ ﻓَﻠَﺎ ﻳَﻘْﺮَﺑُﻮﺍ ﺍﻟْﻤَﺴْﺠِﺪَ ﺍﻟْﺤَﺮَﺍﻡَ (سورہ التوبہ آیت ۲۸)
’’اے ایمان والوں! مشرکین نجس ہیں تو وہ مسجد حرام کے پاس نہ آنے پائیں“
یا ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ آیۃ میں خداوند کی مراد یہ ہے
کہ مشرک کفر و شرک کی نجاست سے آلودہ ہیں اس لئے حکم مسجد الحرام میں آنے سے روکنے
کا ہے اور بقیہ دنیا بھر کی مساجد میں آنے کے متعلق بھی حکم یہ ہے کہ کفار مسجدوں
میں نہیں آسکتے۔
اگر آیۃ میں نجاست سے مراد یہ ہوتی کہ مشرکین ذاتا نجس ہیں تو ہم جانتے ہیں کہ
اگر نجاست مرطوب نہ ہو تو منتقل نہیں ہوتی، لہذا ان کی نجاست اس صورت میں منتقل
ہوتی جب وہ گیلے مسجد میں داخل ہوتے۔ پس نتیجہ یہ ہے کہ کفار کی نجاستِ ذاتی ثابت
کرنے سے آیہ مجیدہ قاصر ہے۔ کئی فقھا نے کفار کی نجاست ذاتیہ یا ظاھریہ سے برائت
احتیار کی ہے۔ اور کفار کی طہارت کے قائل ہیں، مثلا: ﺁﯾﺖ ﺍﻟﻠﮧ ﺍﻟﻌﻈﻤﯽ ﻓﻀﻞ ﺍﻟﻠﮧ، ﺁﯾﺖ ﺍﻟﻠﮧ ﺍﻟﻌﻈﻤﯽٰ ﺻﺎﺩﻗﯽ ﻃﮩﺮﺍﻧﯽ، ﺁﯾﺖ ﺍﻟﻠﮧ ﺟﻨﺎﺗﯽ ﺣﻔﻈﮧ ﺍﻟﻠﮧ، ﺁﯾﺖ ﺍﻟﻠﮧ ﺍﻟﻈﻤﯽ ﯾﻮﺳﻒ ﺻﺎﻧﻌﯽ ﺣﻔﻈﮧ ﺍﻟﻠﮧ ، ﺁﯾﺖ ﺍﻟﻠﮧ ﮨﺎﺩﯼ ﻣﻌﺮﻓﺖ ﻭﻏﯿﺮﮦ۔۔۔
اور بہت سے فقھا مثلا: ﺍٓﯾﺖ ﺍﻟﻠﮧ ﺧﻮﺋﯽ و ﺷﮩﯿﺪ ﺑﺎﻗﺮاﻟﺼﺪﺭ وغیرہ اس حکم کے مشھورِ فتوائیہ ہونے کی بنا پر احتیاط کی بنا
پر کفار کی نجاستِ ظاھریہ کے قائل ہیں۔
نوٹ: مکلف کا فریضہ یہ ہی ہے کہ وہ اپنے مرجع کے فتویٰ کے مطابق
عمل کرے۔
.jpg)