کنواری لڑکی کی شادی کے
معاملے میں باپ اور دادا کو ولایت حاصل ہونے کی دلیل:
اس مسئلے میں فقہاء
اختلاف رائے رکھتے ہیں۔ اس سلسلے میں تین اقوال ہیں:
۱۔
باپ اور دادا کو مکمل اختیار حاصل ہے۔
۲۔
لڑکی کو مکمل اختیار حاصل ہے۔
۳۔
لڑکی اور اولیاء کو مشترک اختیار حاصل ہے۔
اس اختلاف کا اصلی سرچشمہ روایات کا مختلف ہونا ہے؛ کیونکہ روایات کےمندرجہ ذیل مختلف مجموعے ہیں:
الف) وہ روایت جو فقط
باپ کو مکمل اختیار حاصل ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔ ان کی تعداد چھ ۶یا اس سے زیادہ ہیں جن
میں صحیحہ اور دوسری روایتیں بھی موجود ہیں۔ مثلا حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام
سے مروی حلبی کی روایت صحیحہ :
سَأَلْتُهُ عَنِ الْبِكْرِ إِذَا
بَلَغَتْ مَبْلَغَ النِّسَاءِ، أَ لَهَا مَعَ أَبِيهَا أَمْرٌ؟ فَقَالَ: لَيْسَ
لَهَا مَعَ أَبِيهَا أَمْرٌ مَا لَمْ تُثَيَّبْ
"میں نے امام ؑ سے
کنواری لڑکی کے بارے میں سوال کیا : اگر وہ عورت کی حد تک پہنچ جائے تو کیا اس کے
لئے اپنے باپ کے ساتھ اختیار حاصل ہے؟ فرمایا: جب تک وہ شادی شدہ نہ ہو جائے اسے
باپ کے ساتھ کوئی اختیار حاصل نہیں ہے۔"
)وسائل الشیعہ: ابواب
عقد نکاح، باب ۳، حدیث ۱۱(
ب) وہ روایات جو باپ کو
مکمل اختیار حاصل ہونے پر نہیں ؛ بلکہ صرف اس کی اجازت کے شرط ہونے پر دلالت کرتی
ہیں ۔ ان کی تعداد بھی چھ ۶ یا اس سے کچھ زیادہ ہیں اور ان میں بھی صحیحہ اور دوسری روایتیں
موجود ہیں۔مثلا حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ابن ابی یعفور کی روایت
صحیحہ:
لَا تُنْكَحُ ذَوَاتُ الْآبَاءِ مِنَ
الْأَبْكَارِ إِلَّا بِإِذْنِ آبَائِهِنَّ
"جن کنواری لڑکیوں کے
باپ (زندہ) ہوں ان کے باپ کی اجازت کے بغیر ان سے شادی نہ کرو۔"
)وسائل الشیعہ: ابواب
عقد نکاح، باب ۶، حدیث ۵(
ج) وہ روایات باپ کو
مکمل اختیار حاصل نہ ہونے اور کنواری کی اجازت کے شرط ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔ ان
کی تعداد دو ۲ ہیں۔ جن میں سے ایک
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل کردہ منصور بن حازم کی روایت صحیحہ ہے:
تُسْتَأْمَرُ الْبِكْرُ وَ غَيْرُهَا وَ
لَا تُنْكَحُ إِلَّا بِأَمْرِهَا
"کنواری اور غیر کنواری
لڑکیوں سے اجازت لی جائے گی اور ان کی اجازت کے بغیر نکاح نہیں کیا جائے گا۔"
)وسائل الشیعہ: ابواب
عقد نکاح، باب۹، حدیث۱(
اور دوسری روایت صفوان
کی صحیحہ ہے:
اسْتَشَارَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ مُوسَى
بْنَ جَعْفَرٍ علیه السلام فِي تَزْوِيجِ ابْنَتِهِ لِابْنِ أَخِيهِ، فَقَالَ:
افْعَلْ وَ يَكُونُ ذَلِكَ بِرِضَاهَا، فَإِنَّ لَهَا فِي نَفْسِهَا نَصِيباً.
قَالَ:وَاسْتَشَارَ خَالِدُ بْنُ دَاوُدَ مُوسَى بْنَ جَعْفَرٍ علیه السلام فِي
تَزْوِيجِ ابْنَتِهِ عَلِيَّ بْنَ جَعْفَرٍ، فَقَالَ: افْعَلْ وَ يَكُونُ ذَلِكَ
بِرِضَاهَا فَإِنَّ لَهَا فِي نَفْسِهَا حَظّاً
"عبد الرحمن نے اپنے
بھتیجے کے ساتھ اپنی بیٹی کی شادی کے سلسلے میں حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام
سے مشورہ لیا تو امام ؑ نے فرمایا: لڑکی کی اجازت سےشادی کرادو ؛ کیونکہ لڑکی کے
نفس پر اس کا بھی حق ہے۔ صفوان کہتا ہے کہ خالد بن داؤد نے بھی علی ابن جعفر کے
ساتھ اپنی بیٹی کی شادی کے سلسلے میں حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام سے مشورہ
مانگا تو آپ ؑ نے فرمایا: لڑکی کی اجازت سے شادی کرا دو؛ کیونکہ لڑکی کے نفس پر
اس کا حق ہے۔"
)وسائل الشیعہ: ابواب
عقد نکاح، باب۹، حدیث۲(
د) وہ روایات جو کنواری
لڑکی کو مکمل اختیار حاصل ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔ اس حکم پر صرف سعدان بن مسلم کی
روایت دلالت کر رہی ہے جو مندرجہ ذیل ہے:
قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ علیه
السلام: لَا بَأْسَ بِتَزْوِيجِ الْبِكْرِ إِذَا رَضِيَتْ بِغَيْرِ إِذْنِ
أَبِيهَا
"اگر کنواری لڑکی خود
راضی ہوجائے تو اس کے باپ کی اجازت کے بغیر اس کی شادی میں کوئی حرج نہیں ہے۔"
)وسائل الشیعہ: ابواب
عقد نکاح، باب۹، حدیث۴(
اس روایت کو شمار سے ہی
حذف کرنا ضروری ہے کیونکہ باپ کو مکمل اختیار حاصل ہونے یا لڑکی کی رضایت کے ساتھ
باپ کی اجازت کے شرط ہونے پر دلالت کرنے والی روایات کی تعداد بارہ ۱۲؛ بلکہ اس سے زیادہ ہیں
اور ان کی کثرت کے باعث “سنت قطعیہ” کا عنوان وجود میں آتا ہے ۔ اگر ان کی مخالف
روایت کو اخذ کیا جائے تو سنت قطعیہ کی مخالفت لازم آتی ہے۔
اس کے علاوہ یہ روایت
بذات خود ایک ضعیف روایت ہے؛ کیونکہ سعدان کا موثق ہونا ثابت نہیں ہے بشرطیکہ اس
قاعدے کو مان لیا جائے کہ "کامل الزیارات" اور "تفسیر قمی"
میں مذکور تمام راوی موثق ہیں۔
)ملاحظہ ہو: دروس
تمہیدیہ فی القواعد الرجالیہ: ۱۷۱، ۱۷۵(
اس بنا پر ہماری بحث
صرف ابتدائی تین مجموعۂ روایات تک محدود ہوجائے گی۔
ابتدائی تین مجموعے کسی
حد تک باپ کی اجازت کے شرط ہونے کی جہت سے مشترک ہیں اور اسی جہت سے ان کے درمیان
کوئی ٹکراؤ نہیں ہے؛بلکہ ایک اضافی شرط کے لحاظ سے باہم متعارض ہیں جو لڑکی کی
اجازت کا شرط ہونا ہے۔ پس اس تعارض کی وجہ سے اضافی شرط کے لحاظ سے روایتیں ساقط ہو
جائیں گی اور اصل سے رجوع کرنا ضروری ہوجائے گا۔ نتیجتاً باپ اور بیٹی دونوں کی
موافقت شرط ہوجائے گی۔
باپ کی اجازت ضروری ہونے
کی وجہ یہ ہے کہ اس کی اجازت ضروری ہونے کے لحاظ سے روایات کے درمیان کوئی ٹکراؤ
نہیں ہے۔
اور بیٹی کی اجازت اس
لئے شرط ہوگی کہ اگر اس کی اجازت کے بغیر نکاح ہو جائے تو ہم شک کرتے ہیں کہ اس
نکاح پر اثرات مرتب ہوں گے یا نہیں ؟ تو اصل کا تقاضا یہ ہے کہ آثار مرتب نہیں
ہوں گے۔
لڑکی کے دادا کی اجازت
کے شرط ہونے کی دلیل یہ ہے کہ چونکہ دادا در حقیقت باپ ہی ہوتا ہے؛ لہذا جو دلیلیں
باپ کی اجازت کے شرط ہونے پر دلالت کرتی ہیں ان میں دادا میں شامل ہے۔
غیر کنواری (غیر باکرہ)
کے خود مختار ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس حکم پر روایات اور فقہاء کے فتاویٰ متفق
ہیں۔ کنواری کے بارے میں کی جانے والی بحث کے ذیل میں بعض احادیث کی طرف اشارہ ہو
چکا ہے۔
التماس دعا :
سید شہروز زیدی