طلاق کے بعد اولاد کی حضانت (سرپرستی) کا حق کس کو حاصل ہے؟

حِضانت ایک فقہی اصطلاح ہے جس کے معنی بچوں کی دیکھ بھال اور ان کی سرپرستی کے ہیں۔ بچوں کی حضانت اور سرپرستی سے مراد ان کی مناسب تربیت کرنا اور ان کے کھانے پینے اور صفائی ستھرائی کا خیال رکھنا ہے۔ اسلامی فقہ کے مطابق جب تک ماں باپ دونوں باہم زندگی گزار رہے ہوں بچوں کی سرپرستی ان دونوں کی ذمہ داری ہے۔

اکثر فقہا کے فتوے کے مطابق والدین کا ایک دوسرے سے جدا ہونے کی صورت میں لڑکی کی سات(7) سال اور لڑکے کی 2 سال تک سرپرستی کا حق ان کی ماں کو ہے اس کے بعد ان کی سرپرستی باپ کے ذمے ہے؛ لیکن بعض فقہا مانند سیدابوالقاسم خوئی کا نظریہ ہے کہ لڑکے کی سرپرستی بھی لڑکی کی طرح سات (7) سال تک ان کی ماں اور اس کے بعد باپ کے ذمے ہے۔ اسلامی جمہوری ایران کی مدنی قانون اسی نظریے کی بنیاد پر تدوین ہوئی ہے۔

والدین میں سے کسی ایک کے فوت ہونے کی صورت میں حق حضانت دوسرے کی طرف منتقل ہوتی ہے لیکن اگر دونوں فوت ہو جائیں تو یہ ذمہ داری جد پدری کی طرف منتقل ہوتی ہے۔ حق حضانت بچوں کے بالغ ہونے کے ساتھ ختم ہو جاتا ہے۔
جب تک والدین اکھٹے زندگی گزار رہے ہوں اسلامی فقہ میں بچوں کی دیکھ بھال اور ان کی سرپرستی ان دونوں کی ذمے ہیں۔ لیکن ان دونوں کا ایک دوسرے سے جدا ہونے کی صورت میں دو سال تک بچوں کی سرپرستی کا حق ان کی ماں کو ہے؛ دو سال کے بعد یہ ذمہ داری کس کی ذمے ہے، فقہا کے درمیان اختلاف‌ ہے۔ صاحب‌ جواہر کے مطابق اکثر فقہاء[1] من جملہ محقق حلی اور علامہ حلی کا نظریہ ہے کہ لڑکی کی حضانت سات سال تک والدہ کے ذمہ ہے جبکہ لڑکے کی حضانت دو سال کے بعد ان کے والد کی طرف منتقل ہوتی ہے۔[2]
بعض دوسرے فقہاء مانند صاحب‌ مدارک اور سیدابوالقاسم خوئی اس بات کے معتقد ہیں کہ بچے کی حضانت چاہے لڑکا ہو یا لڑکی سات سال تک ماں اس کے بعد باپ کے ذمے ہے۔[3] اسلامی جمہوری ایران کی مدنی قانون بھی اسی دوسرے نظریے کے تحت تدوین کی گئی ہے۔[4] علامہ حلی کے مطابق شیخ مفید لڑکی کی حضانت 9 سال تک اس کے ماں کا حق سمجھتے تھے۔[5]
حضرت امام خمینی کے مطابق  شادی کرنے کی صورت میں ماں کی حضانت کا حق ختم ھوجاتا ھے، اور یھ حق باپ کو حاصل ہوتا ہے۔[6]
آیت اللہ سیستانی کے مطابق دو سال تک بچوں (لڑکی یا لڑکا) کی سرپرستی کا حق، ماں اور باپ دونوں کو برابر سے ہے، اور طلاق کی صورت میں بھی حق حضانت ماں سے ساقط نہیں ہوتا جب تک دوسری شادی نہ کرے اور شادی کرنے کی صورت میں وہ جس طرح سے بھی توافق کر سکیں، ہاں احتیاط مستحب یہ ہے کہ باپ سات سال سے پہلے بچے کو ماں سے جدا نہ کرے ، اگر چہ لڑکا ہی کیوں نہ ہو، اور باپ کے لیے جایز نہیں ہے بچے کو ماں سے ملنے نہ دینے کے ذریعے اس کو نقصان پہونچاۓ اور اسی طرح اگر بچے عطوفت و محبت شدید کی بنیاد پر ماں سے نہ ملنے کی وجہ سے اذیت ہو رہے ہوں تو باپ کے لیے ضروری ہیکہ ان کی ملاقات کا ضمینہ فراہم کرے۔[7]
جب بچے بالغ ہو جاتے ہیں تو چاہے لڑکا ہو یا لڑکی حضانت کی مدت ختم ہو جاتی ہے اس کے بعد وہ خود اپنی زندگی کا صاحب اختیار ہے نہ کوئی اور۔[8]
اکثر فقھا اس بات کے قائل ہیں کہ والدین میں سے جو بھی بچے کی سرپستی اور حضانت کا ذمہ دار بن جاتا ہے، کو یہ حق نہیں ہے کہ و دوسرے کو جو اس حق سے محروم ہو گیا ہے بچے سے ملاقات اور بچے کی حضانت میں مدد کرنے سے روکے۔
فقہاء کے فتوے کے مطابق ماں اس وقت تک بچے کی سرپرستی اور حضانت کر سکتی ہے جب تک وہ کسی اور مرد سے شادی نہ کرے۔[9] صاحب‌ جواہر لکھتے ہیں کہ اس سلسلے میں فقہاء کا اجماع ہے اور کوئی اختلاف نہیں ہے۔[10] اس سلسلے میں ایک اور نکتہ یہ ہے کہ ماں بچے کی سرپرستی اور حضانت کے بدلے بچے کے باپ سے اجرت بھی لے سکتی ہے۔
پاکستان کے قانون کے مطابق عدالت کے زریعےبچوں کی حضانت حاصل کر سکتے ہیں، بچے کی حضانت دیتے ہوئے عدالت بچے کی فلاح و بہبود کو سب سے زیادہ مدنظر رکھتی ہے۔[11]



[1]۔  نجفی، جواہر الکلام، ۱۴۰۴ق، ج۳۱، ص۲۹۰

[2]۔  محقق حلی، شرایع الاسلام، ۱۴۰۸ق، ج۲، ص۲۸۹؛علامہ حلی، قواعد الاحکام، ۱۴۱۳ق، ج۳، ص۱۰۲

[3] ۔  عاملی، نہایۃ المرام، ۱۴۱۱ق، ج۱، ص۱۶۸؛‌ خوئی، منہاج الصالحین، ۱۴۱۰ق، ج۲، ص۲۸۵۔

[4] ۔  نگاہ کنید بہ منصور، قانون مدنی، ۱۳۹۱ش، ص۲۰۵

[5] ۔ علامہ حلی، قواعد الاحکام، ۱۴۱۳ق، ج۳، ص۱۰۲

[6] ۔  استفتائات حضرت امام خمینی ، ج ۳ ص ۲۰۹

[7] ۔ www.sistani.org/urdu/qa/01786

[8] ۔  علامہ حلی، قواعدالاحکام، ۱۴۱۳ق، ج۳، ص۱۰۱و۱۰۲؛ امام خمینی، تحریرالوسیلہ، دارالعلم، ج۲، ص۳۱۳

[9] ۔ محقق حلی، شرایع الاسلام، ۱۴۰۸ق، ج۲، ص۲۹۰؛ نجفی، جواہر الکلام، ۱۴۰۴ق، ج۳۱، ص۲۹۲۔

[10] ۔ نجفی، جواہر الکلام، ۱۴۰۴ق، ج۳۱، ص۲۹۲

[11] ۔ سیکشن 491 سی آر پی سی