مرجعیت میں مرد ہونے کی شرط پر مختلف فقہاء نے مختلف آراء پیش کی ہیں۔ بعض فقہاء نے عورتوں کے لیے خاتون مجتہدہ کی تقلید کو جائز قرار دیا ہے، جبکہ مشہور نے مرد ہونے کو مرجعیت کی شرط سمجھا ہے۔ مرجع تقلید کے لیے مرد ہونے کی شرط کو سب سے پہلے شہید ثانی نے بیان کیا، شہید ثانی سے پہلے کے فقہاء کے اقوال میں اس شرط کا ذکر نہیں ملتا۔ اس کے بعد سید محمدکاظم طباطبائی یزدی نے ذکر کیا، جس کے بعد یہ شرط عام ہوگئی۔ اس کے برعکس، بعض فقہاء نے اس بات کا امکان تسلیم کیا ہے کہ اگر ضروری شرائط موجود ہوں تو خواتین ایک خاتون مجتہد کی تقلید کر سکتی ہیں۔ اس رائے کے حاملین میں آیت اللہ محمد صادقی تہرانی (صادقی تهرانی، رساله توضیح المسائل نوین، ۱۳۸۴ش، ص۲۶)، آیت اللہ یوسف صانعی (صانعی، مجمع المسائل، ۱۳۸۷ش، ج۱، ص۲۰) اور آیت اللہ محمد ابراہیم جناتی (جناتی، رساله توضیح المسائل، ۱۳۸۲ش، ص۶۲؛ جناتی، ادوار فقه، ۱۳۷۴ش، ص۳۷۱) شامل ہیں۔ آیت اللہ جوادی آملی (جوای آملی، توضیح المسائل، ۱۳۹۶ش، ص۲۸) کے مطابق بھی خواتین ایک خاتون مجتہدِ اعلم کی تقلید کر سکتی ہیں۔
حال ہی میں رہبر انقلاب اسلامی، آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے خواتین کے ایک وفد سے گفتگو میں فرمایا کہ:
"آج خوش قسمتی سے ایسی خواتین کم نہیں جو مجتہدہ ہوں اور (باقاعدہ) فقہی اجتہاد کے درجے پر فائز ہوں، میں سمجھتا ہوں کہ خواتین سے متعلق بہت سے فقہی مسائل، جنھیں مرد فقہا ٹھیک سے نہیں سمجھ پاتے، میں خواتین کو خاتون مجتہدہ کی تقلید کرنا چاہیے۔"
وہ فقہاء جنہوں نے مرجع ہونے کے لیے مرد کی شرط کو قبول نہیں کیا یا اس میں شک ظاہر کیا ہے، ان میں سید محمد طباطبائی مجاہد، علی کاشفالغطاء، صاحب جواہر، محمد حسین غروی اصفہانی، سید محسن حکیم، سید علی حسینی شبّر، محمد علی اراکی، سید رضا صدر، مرتضی اردکانی اور سید تقی طباطبائی قمی شامل ہیں۔
عورت مجتہدہ کی تقلید کی مشروعیت کے چند دلائل مندرجہ ذیل ہیں:
۱۔ وہ آیات جو کسی جنسیت کی قید کے بغیر، حقائق اور معارف کی سمجھ بوجھ کے لیے فرد کی اہلیت کو معیارقرار دیتی ہیں۔ جیسے:
فَاسْاَلُـوٓا اَهْلَ الـذِّكْرِ اِنْ كُنْتُـمْ لَا تَعْلَمُوْنَ (سورہ نحل آیت ۴۳)
۲۔ہم جہاں تک غور کرتے ہیں اصلا معصومین علیھم السلام کی تقلید کی جاتی ہے اور علماء ان کے علوم کے حاملین ہیں جس کی وجہ سے ان کی طرف رجوع کیا جاتا ہے فہرست معصومین میں حضرت فاطمہ بنت رسول اللہ علیھما السلام کی موجودگی عورت کی تقلید جائز ہونے کی مضبوط دلیل ہے۔ ان کا اسوہ حسنہ اور فرمان حجت ہے۔ اور ان کی اطاعت و اتباع واجب ہے۔ (ڈاکٹر محسن نقوی)
جیسا کہ امام باقر علیه السلام فرماتے ہیں: ... ولقد کانت - علیها السلام - مفروضة الطاعة علی جمیع من خلق الله۔۔۔۔
"حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی اطاعت تمام مخلوقات خدا، جنوں، انسانوں و پیغمبروں۔۔۔۔۔ پر واجب ہے۔"
(محمد بن جریر بن رستم طبری؛ دلائل الامامة، ص 28)
۳۔ رسول خدا ؑ اور آئمہ اطہار ؑ کی سنت میں یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ اگر کوئی شخص دینی معارف کا اہل ہو، تو اس کی جانب لوگوں کو رجوع کرنے کا کہا گیا۔ اس معاملے میں مرد یا عورت ہونا اہمیت نہیں رکھتا۔ ان خواتین میں سے ایک، جن کی جانب ارجاع کیا گیا، امام صادقؑ کی زوجہ اور امام کاظمؑ کی والدہ حمیدہ مصفاہ ہیں۔ (جناتی، ادوار فقه، ۱۳۷۴ش، ص۳۶۹)
ایک اور روایت میں جب امام صادقؑ سے حج میں عورت کی نیابت کے بارے میں سوال کیا گیا، تو آپ نے اس کو علم اور دینی فہم پر مشروط کیا اور فرمایا: نعم اذا کانت فقهیة مسلمة و کانت قد حجّت، رُبّ امرأة خیر من رجل
"بہت ممکن ہے کہ ایک عورت مرد سے بہتر ہو۔" (کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۴، ص۳۰۶)
یہ روایت ظاہر کرتی ہے کہ عورتوں کے نسوانی خصائص کو ان کی اجتہادی قوت کو مردوں سے کم قرار دینے کا جواز نہیں بنایا جا سکتا۔ ۴۔ تقلید کی حجیت کے تمام دلائل میں اطلاق ہے اور کسی بھی دلیل میں مرجعیت کو مردوں تک محدود نہیں کیا گیا۔ مثلاً امام حسن عسکریؑ کی وہ روایت، جس میں تقلید کے قابل فرد کی خصوصیات بیان کی گئی ہیں، اس میں مرد ہونے کا ذکر نہیں کیا گیا۔
و اما من کان من الفقهاء صائنا لنفسه حافظا لدینه مخالفا علی هواه مطیعا لامر مولاه فللعوام ان یقلدوه
(حرّ عاملی، وسائل الشیعه، مؤسسة آل البیت علیهم السلام لإحیاء التراث، ج۲۷، ص۱۳۱)
آیت اللہ مرتضیٰ مطہری کے مطابق، سیرہ عقلاء کے اس اصول میں، جو تقلید کی اصل بنیاد ہے، ماہرین کی طرف رجوع کو جنس سے مختص نہیں کیا گیا، پس اگر عورت زیادہ علم اور تجربہ رکھتی ہو، تو عقلاء عورت کی طرف رجوع کو ترجیح دیں گے۔
(مطهری، مجموعه آثار استاد شهید مطهری (زن و مسائل قضایی و سیاسی)، ۱۳۸۴ش، ج۲۹، ص۴۲۲)
۵۔ اسلامی تاریخ میں صحابہ، تابعین اور اس کے بعد کے ادوار میں خواتین فقہا موجود رہی ہیں، جن کے فقہی مقام کو مردوں سے مختلف نہیں سمجھا گیا۔ (جناتی، ادوار فقه، ۱۳۷۴ش، ص۳۶۸)
دینی مسائل کی سمجھ کے لیے خواتین کی طرف رجوع عام تھا اور اس حوالے سے معصومین ؑ کی جانب سے کوئی ممانعت نہیں کی گئی۔
پس عورتوں کے مخصوص مسائل کی پیچیدگیوں کے پیش نظر، ایک فقیہہ عورت موضوع کو زیادہ بہتر انداز میں سمجھ سکتی ہے اور زیادہ درست فتویٰ دے سکتی ہے۔ اس لیے، اگر مرد ہونے کو مرجع تقلید کی شرط مان بھی لیا جائے تو عورتوں کے لیے مجتہدہ عورت کی تقلید میں کوئی اشکال نہیں ہے۔