ہمارے معاشرے میں یہ رواج عام ہے کہ اہم اور خوشگوار کاموں کی ابتداء خصوصاً نکاح اور شادی بیاہ جیسے معاملات میں، جنتری کا سہارا لیا جاتا ہے۔ جنتری سے سعد اور نحس تاریخوں کو دیکھا جاتا ہے، اور ان کے مطابق امور کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔ لوگ خوش نصیبی اور برکت کے حصول کے لیے ان تاریخوں کو اہمیت دیتے ہیں۔
دنیا بھر میں روزانہ شادی
اور نکاح جیسے معاملات انجام پاتے ہیں۔ اگر دنوں یا تاریخوں کے کوئی اثرات ہوتے، تو
پیغمبر اکرمؐ ضرور نکاح سے پہلے دن اور تاریخ کے انتخاب کو لازم طور پر امت میں رائج
فرماتے۔
عوام
میں یہ بات عام ہے کہ کچھ دن سعد ہیں جبکہ کچھ دن نحس۔ تاہم، اس بارے میں شدید اختلاف پایا جاتا ہے کہ کون
سے دن سعد ہیں اور کون سے نحس۔ یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ کیا یہ نظریہ خود اسلام سے
ماخوذ ہے؟
عقلی
اعتبار سے یہ ممکن ہے کہ زمان اور ایام کے درمیان فرق پایا جاتا ہو، اور کچھ دن نحوست
یا برکت کی علامت رکھتے ہوں، لیکن ہمارے پاس ایسی کوئی عقلی دلیل موجود نہیں ہے جو
اس نظریے کو ثابت یا رد کرے۔ ہم صرف اتنا کہہ سکتے ہیں کہ ایسا ہونا ممکن ہے، لیکن
عقلی بنیاد پر اس کا ثبوت موجود نہیں۔
لہٰذا،
اگر اس موضوع پر شرعی دلائل موجود ہوں، تو ان کو قبول کرنا لازم ہوگا، اور ان دلائل
کی بنیاد پر اس نظریے کو تسلیم کرنا ضروری ہوگا۔
قرآن مجید میں صرف دو مقامات
ایسے ہیں جہاں "ایام کی نحوست" کی جانب اشارہ کیا گیا ہے۔
اِنَّـآ اَرْسَلْنَا عَلَيْـهِـمْ
رِيْحًا صَرْصَرًا فِىْ يَوْمِ نَحْسٍ مُّسْتَمِرٍّ (سورۃ القمر آیت ۱۹)
ترجمہ: "بے شک ہم نے
ایک دن سخت آندھی بھیجی تھی جس کی نحوست دائمی تھی۔"
فَاَرْسَلْنَا عَلَيْـهِـمْ
رِيْحًا صَرْصَرًا فِىٓ اَيَّامٍ نَّحِسَاتٍ (سورۃ فصلت آیت ۱۶)
ترجمہ: "تو ہم نے بھی
ان کے اوپر تیز اور تند آندھی کو ان کی نحوست کے دنوں میں بھیج دیا۔۔"
اس کے برعکس، بعض آیات میں
دنوں کے لیے "مبارک" کا ذکر آیا ہے، جیسے شبِ قدر کے بارے میں ارشاد ہوا:
اِنَّا اَنْزَلْنَاہُ فِی لَیْلَةٍ مُبَارَکَةٍ (سورہ دخان آیت ۳)
ترجمہ: "ہم نے اس قرآن کو ایک مبارک رات میں نازل کیا ہے ۔"
اگر دن تاریخ کے حوالے سے
کچھ روایات تاریخی منابع میں موجود بھی ہیں تو متعدد ضعیف اور من گھڑت ہیں و خرافات
سے ملی جلی ہیں۔
لیکن
سب ایسی نہیں ہیں، بلکہ ان کے درمیان متعدد روایات معتبر اور قابل قبول ہیں، جیسا
کہ مذکورہ آیات کی تفسیر میں بہت سے مفسرین نے ان روایات کو صحیح قرار دیا ہے۔ علامہ
مجلسی علیہ الرحمہ نے بھی اس سلسلہ میں بہت سی احادیث "بحار الانوار" میں
بیان کی ہیں۔
نحوست ایام کی علت:
متعدد
روایات میں تاریخوں کو سعد و نحس ان تاریخوں میں واقع ہونے والے واقعات کی بنا پر
سعد و نحس کہا گیا ہے، مثال کے طور پر حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام سے
منقول ایک روایت میں بیان ہوا ہے کہ ایک شخص نے امام علیہ السلام سے درخواست کی کہ
جس میں"بدھ" کے
بارے میں سوال کیا جس کو عوام الناس کے درمیان اچھا نہیں سمجھا جاتا ہے، امام سے
سوال کیا کہ وہ کونسا بدھ ہے؟ امام علیہ السلام نے فرمایا: "اس سے
مراد مہینہ کا آخری بدھ ہے، جس میں بہت سے واقعات رونما ہوئے ہیں، اسی روز قابیل
نے اپنے بھائی ہابیل کو قتل کیا اور اسی
روز میں خداوندعالم نے قوم عاد پر تیز آندھی کے ذریعہ عذاب نازل کیا"۔ (تفسیر
نور الثقلین، جلد ۵، صفحہ ۱۸۳،
حدیث ۲۵)
لہٰذا متعدد مفسرین نے اس طرح کی بہت سی روایات کی پیروی کرتے ہوئے ہر مہینہ کے
آخری بدھ کو روز نحس قرار دیا۔
اسی طرح بعض دوسری روایات میں بیان ہوا ہے کہ ہر ماہ کی پہلی تاریخ نیک اور مبارک
ہے، کیونکہ اس میں جناب آدم علیہ السلام پیدا ہوئے، اسی طرح ہر ماہ کی ۲۶ تاریخ کو نیک شمار کیا گیا ہے کیونکہ
خداوندعالم نے اس تاریخ میں جناب موسیٰ علیہ السلام کے لئے دریا میں راستہ بنایا۔(تفسیر
نور الثقلین، جلد ۵، صفحہ ۱۰۵)
اسی طرح ہر ماہ کی ۳تاریخ کو نحس قرار
دیا کیونکہ اس تاریخ میں جناب آدم و حوا علیہما السلام کو جنت سے نکالا گیا اور ان
کے بدن سے جنتی لباس جدا ہوگیا۔(تفسیر نور الثقلین ، جلد ۵،
صفحہ ۵۸)
یا
ہر مہینہ کی سات تاریخ کو نیک مانتے ہیں کیونکہ اس تاریخ میں جناب نوح علیہ السلام
کشتی پر سوار ہوئے اور غرق ہونے سے نجات پاگئے۔ (تفسیر نور الثقلین ، جلد ۵، صفحہ ۶۱)
یا
جیسا کہ نو روز کے سلسلہ میں حضرت امام صادق علیہ السلام سے منقول حدیث میں بیان
ہوا ہے کہ آپ نے فرمایا: یہ ایک مبارک روز ہے جس میں جناب نوح علیہ السلام کی کشتی
جودی نامی پہاڑی پر رکی، جناب جبرئیل پیغمبر اکرم (ص) پر نازل ہوئے، اسی روز حضرت
علی علیہ السلام نے دوش پیغمبر اکرم (ص) پر سوار ہوکر خانہ کعبہ سے بتوں کو توڑا،
اور واقعہ غدیر خم بھی اسی نو روز میں واقع ہوا ہے۔ (بحار الانوار ، جلد ۵۹، صفحہ ۹۲)
مختصر
یہ کہ اس طرح کے الفاظ بہت سی روایات میں بیان ہوئے
ہیں جن میں بعض اچھے واقعات اور بعض ناگوار واقعات کی بنا پر تاریخوں کو سعد یانحس
قرار دیا ہے، خصوصاً روز عاشورہ کے سلسلہ میں جس کو بنی امیہ اہل بیت علیہم السلام
پر کامیابی کے گمان سے اس دن کو ایک مبارک روز شمار کرتے تھے، لہٰذا روایات میں اس
دن کو مبارک ماننے سے منع کیا گیا ہے بلکہ
اس روز کاروبار اور تحصیل رزق کی تعطیل کے لئے کہا گیا ہے، تاکہ عملی طور پر بنی
امیہ کے اس کام سے دوری اختیار کی جائے، لہٰذا اس طرح کی روایات کے پیش نظر بعض
علمانے سعد و نحس کی اس طرح تفسیر کی ہے کہ اسلام نے ان واقعات کی طرف توجہ دی ہے
تاکہ انسان خود کو عملی طور پر تاریخی مثبت واقعات کے مطابق قرار دے ، اور بُرے
اور غلط واقعات، نیز اس طرح کے واقعات کو رونما کرنے والوں سے دوری اختیار کریں۔
ممکن
ہے کہ یہ تفسیر بعض روایات کے سلسلہ میں صحیح ہو لیکن تمام روایات کے سلسلہ میں
مسلم طور پردرست نہیں ہے کیونکہ انھیں بعض روایات سے نتیجہ نکلتا ہے کہ بعض دنوں
میں مخفی تاثیر پائی جاتی ہے جس سے ہم آگاہ نہیں ہیں۔
سعد
و نحس کی حقیقت اور اسلامی نقطہ نظر:
یہ بات قابل غور ہے کہ بعض لوگ سعد و نحس کے معاملے
میں اس حد تک آگے بڑھ جاتے ہیں کہ کوئی کام کرنے سے پہلے تاریخ کے سعد یا نحس ہونے
کی جانچ شروع کر دیتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں بعض اوقات اہم کام ترک کر دیتے ہیں اور
قیمتی مواقع ضائع کر بیٹھتے ہیں۔ اسی طرح، وہ اپنی یا دوسروں کی کامیابی یا ناکامی
کا جائزہ لینے اور زندگی کے تجربات سے سبق حاصل کرنے کے بجائے ہر ناکامی کا سبب تاریخ
یا دنوں کو ٹھہراتے ہیں، یہ کہتے ہوئے کہ "ہم کیا کریں، تاریخ ہی نحس تھی۔"
اسی طرح کامیابی کو بھی صرف نیک اور مبارک تاریخ کا نتیجہ سمجھتے ہیں۔
یہ
رویہ حقیقت سے فرار کے مترادف ہے اور زندگی کے مسائل کی غیر ضروری وضاحت ہے، جس سے
گریز کرنا چاہیے۔ عوام میں رائج ان خیالات یا منجمین اور فال نکالنے والوں کی باتوں
پر عمل کرنے سے پرہیز کرنا ضروری ہے۔ اگر سعد و نحس کے بارے میں کوئی معتبر حدیث یا
شرعی دلیل موجود ہو تو اسے تسلیم کیا جائے، ورنہ غیر مصدقہ باتوں پر دھیان دیے بغیر
اپنی زندگی کو کوشش، محنت، اور خدا پر بھروسے کے ساتھ آگے بڑھانا چاہیے اور اسی کی
مدد طلب کرنی چاہیے۔ ۔علامہ
طباطبایی کے مطابق: "کسی بھی
صورت میں بعض دنوں کو نحس قرار نہیں دے سکتے ہیں اور اس پر کوئی دلیل نہیں لاسکتے ہیں۔
کیونکہ زمان کے اجزا مقدار کے لحاظ سے سب ایک جیسے ہیں اور اِس دن اور اُس دن کے درمیان
کوئی فرق نہیں ہے تاکہ ہم کسی ایک کو سعد اور دوسرے کو نحس قرار دے سکیں۔" (المیزان فی تفسیر
القرآن، ج۱۹، ص۱۱۵-۱۱۶)
اسلامی
نقطہ نظر اور عملی رہنمائی:
تاریخوں
کے سعد و نحس کے مسئلے پر غور و فکر، انسان کو نہ صرف ماضی کے مثبت واقعات کی طرف رہنمائی
کرتا ہے بلکہ اسے خداوند عالم کی ذات پاک کی جانب متوجہ ہونے اور اس سے نصرت و مدد
طلب کرنے کا سبب بھی بنتا ہے۔ اسی لیے متعدد روایات میں ذکر ہوا ہے کہ جن تاریخوں کو
نحس قرار دیا گیا ہے، ان میں صدقہ دے کر، دعا مانگ کر، قرآن کی مخصوص آیات کی تلاوت
کرکے، اور خداوند منّان پر توکل و بھروسہ کرتے ہوئے اپنے امور انجام دیے جائیں تاکہ
کامیابی حاصل ہو۔
جیسا
کہ ایک حدیث میں بیان ہوا ہے کہ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کے دوستوں میں سے
ایک شخص منگل کے روز امام کی خدمت میں حاضر ہوا، امام علیہ السلام نے فرمایا کہ تم
کل نہیں آئے ؟ اس نے عرض کیا:کل پیر کا دن تھا، میں پیر کے دن گھر سے باہر نکلنے
کو اچھا نہیں مانتا! اس وقت امام حسن عسکری علیہ السلام نے فرمایا: ”جو شخص پیر کے
دن کے شر سے محفوظ رہنا چاہتا ہے اسے نماز صبح کی پہلی رکعت میں سورہ ”ہل اتی“
پڑھنی چاہئے، اس کے بعد امام علیہ السلام نے سورہ ہل اتی کی اس آیت کی تلاوت
فرمائی (جو شر اوربلا کے دور ہونے کے لئے
مناسب ہے) فَوَقَاہُمْ اللهُ
شَرَّ ذَلِکَ الْیَوْمِ وَلَقَّاہُمْ نَضْرَةً وَسُرُورًا "تو خدا
نے انھیں اس دن کی سختی سے بچالیا اور تازگی و سرور عطا کر دیا۔" (بحارالانوار،جلد
۵۹، صفحہ ۳۹، حدیث۷)
اسی
طرح ایک دوسری حدیث میں بیان ہوا ہے کہ حضرت امام صادق علیہ السلام کے اصحاب میں
سے ایک شخص نے امام علیہ السلام سے سوال کیا: کیا روز بدھ جس کو نحس قرار دیا گیا
یا اس کے علاوہ دوسرے نحس دنوں میں سفر کرنا مناسب ہے؟ امام علیہ السلام نے اس کے
جواب میں فرمایا: صدقہ دے کر سفر کا آغاز کرو، اور نکلتے وقت آیة الکرسی کی تلاوت
کرو (اور جہاں چاہو سفر کرو)۔ (بحارالانوار
، جلد ۵۹، صفحہ ۲۸)
ایک دوسری حدیث میں بیان ہوا ہے کہ امام
علی نقی علیہ السلام کے دوستوں میں سے ایک شخص کہتا ہے: میں امام علیہ السلام کی
خدمت میں حاضر ہوا، حالانکہ راستہ میں میری انگلی زخمی ہوگئی تھی،چو نکہ ایک سواری
میرے پاس سے گزری جس کی وجہ سے میرا شانہ زخمی ہوگیا، جس کی بنا پر کچھ لوگوں سے
نزاع ہوگئی اور انھوں نے میرے کپڑے تک پھاڑ ڈالے، میں نے کہا: اے دن !خدا تیرے شر
سے محفوظ رکھے، کتنا برا دن ہے! اس وقت امام علیہ السلام نے فرمایا: تو ہماری محبت
کا دعویٰ کرتا ہے اور اس طرح کہتا ہے؟
اس دن کی کیا خطا ہے جو تو اس دن کو گناہگار قرار دیتا ہے؟ چنانچہ وہ شخص کہتا ہے
کہ میں امام علیہ السلام سے یہ گفتگو سن کر ہوش میں آیا اور میں نے اپنی غلطی کا
احساس کرتے ہوئے عرض کی: اے میرے مولا و آقا! میں توبہ و استغفار کرتا ہوں، اور
خدا سے بخشش طلب کرتا ہوں۔اس موقع پر امام علیہ السلام نے فرمایا: "دنوں
کا کیا گناہ ہے؟ کہ تم ان کو بُرا اور نحس مانتے ہو جب کہ تمہارے اعمال ان دنوں
میں تمہارے دامن گیر ہوتے ہیں۔"
راوی کہتا ہے: "میں نے
عرض کی میں خدا سے ہمیشہ کے لئے استغفار کرتا ہوں، اے فرزندِ رسول !میں توبہ کرتا
ہوں۔"
اس
وقت امام علیہ السلام نے فرمایا: "اس سے کوئی فائدہ نہیں، جس چیز میں مذمت
نہیں ہے اس کی مذمت کرنے پرخدا تمہیں سزا دے گا ، کیا تمہیں نہیں معلوم کہ
خداوندعالم ثواب و عذاب دیتا ہے، اور اعمال کی جزا اس دنیا اور آخرت میں دیتا ہے،
اس کے بعد مزید فرمایا: اس کے بعد اس عمل کی تکرار نہ کرنا، اور حکم خدا کے مقابل
دنوں کی تاثیر پر عقیدہ نہ رکھنا۔" (تحف العقول ، بحا رالانوار ، جلد۵۹، صفحہ ۲)
مومنین
کرام، یہ پُر معنی حدیث اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ اگر دنوں کا کوئی اثر ہوتا
ہے تو وہ صرف خدا کے حکم سے ہوتا ہے، لہٰذا ہمیں مستقل طور پر دنوں کی تاثیر پر یقین
نہیں رکھنا چاہیے اور نہ ہی اپنے آپ کو خدا کی مدد سے بے نیاز سمجھنا چاہیے۔ جن واقعات
کا اکثر اوقات تعلق انسان کے بُرے اعمال کے کفارے سے ہوتا ہے، انہیں دنوں کی تاثیر
سے منسلک نہیں کرنا چاہیے اور اپنے آپ کو بری الذمہ قرار نہیں دینا چاہیے۔ دعا ہے کہ
پروردگار ہمارے عقل و شعور میں اضافہ فرمائے اور دین کو سمجھنے کی توفیق دے۔
علامہ سید شہروز زیدی