
باسمہ
تعالی،
تمام
مراجع عظام کے مطابق اگر کوئی شخص اپنے علاقے میں سیادت کے لیے معروف ہو اور اس کی
سیادت نسل در نسل مشہور ہو، اور کوئی اس کی سیادت کا انکار نہ کرے، تو یہ سیادت کے
ثبوت کے لیے کافی ہے۔
سیادت (یعنی کسی شخص کا سید ہونے کا دعویٰ) کو ثابت کرنے کے
لیے صرف DNA ٹیسٹ پر انحصار کرنا اسلامی نقطہ نظر سے کافی نہیں سمجھا جاتا،
خاص طور پر دور کے نسب کے معاملات میں کیونکہ DNA ٹیسٹ
قریبی نسب جیسے والدین اور بچوں کے تعلقات کو ثابت کرنے میں مؤثر ہے، لیکن دور کے نسب
(مثلاً نسلوں پہلے کے اجداد تک) کو ثابت کرنے میں اس کی دقت اور قطعیت یقینی نہیں ہے۔ دور کے نسب کے سلسلے میں DNA ٹیسٹ میں عام طور
پر احتمال اور قیاس شامل ہوتا ہے، جو کہ اسلامی شریعت کے لیے حجت نہیں۔ تاریخی طور پر سید خاندان اپنی شناخت محفوظ رکھنے کے لیے معروف
رہا ہے، اور ان کا نسب عوام میں مشہور ہوتا تھا۔ اگر کوئی خاندان نسل در نسل سیادت
کے لیے معروف نہ ہو، تو اس کا دعویٰ بغیر مستند شواہد کے تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ DNA ٹیسٹ
جینیاتی مشابہت دکھا سکتا ہے، لیکن یہ سید ہونے کے خاص دعوے کو ثابت کرنے کے لیے ناکافی
ہے، کیونکہ کئی افراد مشترکہ جینیاتی وراثت رکھتے ہیں جن کا سیادت سے کوئی تعلق نہیں
ہو سکتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آیت
اللہ العظمیٰ سیستانی: ڈی این اے ٹیسٹ کے ذریعے
جو نتیجہ حاصل کیا جاتا ہے، اس کا معیار یہ ہے کہ وہ کسی شخصی اجتہاد پر مبنی نہ ہو
بلکہ یقینی اور حتمی ہو۔ جہاں تک دور کے نسب کے اثبات کا تعلق ہے، ہمارے نزدیک یہ ثابت
نہیں ہے کہ ڈی این اے ٹیسٹ میں یہ معاملہ یقینی اور حتمی ہے۔
(sistani.org/
آیت
الله سنجری اراکی: ثابت شدہ نسب میں ڈی این اے ٹیسٹ کی مدد لینا حجت اور معتبر ہے،
لیکن نسب کے انکار کے لیے یہ قابل اعتبار نہیں ہے، کیونکہ (قریبی)نسب کے انکار کے لیے
واحد شرعی طریقہ لعان ہے۔
آیت
اللہ سید محمد یثربی: سیادت کو ثابت کرنے میں ڈی این اے کی حجیت نہیں ہے۔
(-dna/احراز-سیادت-با-آزمایشyasrebi.ir/questions/)
آیت
اللہ ہادی نجفی: ڈی این اے ٹیست شرعی لحاظ سے سیادت کا اثبات نہیں کرتا۔
(alnajafi.ir/index.php/2015-12-02-21-05-13/606-dna)