سوال: کیا تقلید کرنا ضروری ہے؟

احکامِ  شریعت  کا  قرآن مجید اور احادیث اہل بیت علیہم السلام استخراج و استنباط کرنا آسان نہیں ہے بلکہ ایک خاص مہارت کی ضرورت ہے اور جب تک ایک شخص عربی زبان کے ادب اور اسلام کے مختلف علوم جیسے تفسیر قرآن، درایہ، حدیث شناسی ، علم رجال اور حدیث کے راویوں کی شناخت ، اصول فقہ، فقہائے اسلام کے نظریوں وغیرہ سے واقفیت میں مہارت نہ رکھتا ہو اور اصطلاحاً خداوند متعال کی توفیق سے درجہٴ اجتہاد اور فقاہت پر نہ پہنچا ہو ہرگز وہ احکامِ خداوند کو اِس کے منابع اور مصادر سے استخراج نہیں کر سکتا، اس  لیے ضروری ہے کہ  دین میں مہارت نہ رکھنے والا شخص ایسے شخص کی طرف جو دین میں مہارت رکھتا ہے اور specialist ہے رجوع کرے۔

سیرت عقلائیہ بھی یہی ہے کہ جاہل عالم سے رجوع کرے۔
خدا وند متعال قرآن  ِ کریم میں فرماتا ہے:  
فَاسْأَلُواْ أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ [1]
’’
تو تم لوگ اہل ذکر سے پوچھ لو، اگر تم خود نہیں جانتے ہو۔‘‘
امام حسن عسکریؑ:
’’.. فَأمّا مَنْ کانَ مِنَ الفُقَهَاءِ، صائِناً لِنَفْسِهِ، حافِظاً لِدیٖنِهِ، مُخٰالِفاً عَلیٰ هَواهُ، مُطیٖعاً لأمْرِ مَوْلاهُ فَلِلْعَوٰامِ اَنْ یُقَلِّدُوْهُ..‘‘ [2]
’’.. فقہا اور مجتہدین میں سے جو شخص تحفظ نفس رکھتا ہو اپنے نفس کی حفاظت کرنے والا تاکہ خود کو خداوند متعال کی بندگی اور صراط مستقیم سے گمراہی اور کجروی سے محفوظ کر سکے، خداوند متعال اور اپنے مولاۓحقیقی کے امر اور فرمان کا مطیع ہو ، تو مسلمانوں پر لازم ہے کہ اس کی تقلید کریں ...‘‘
علم فقہ اسلامی علوم کے مقدس ترین علم میں سے ایک ہے جو خداوند متعال کی صحیح بندگی اور اس کے صحیح طریقے کو بیان کرتا ہے یہ علم پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور ائمہ طاہرین علیہم السلام کے زمانے میں بہت زیادہ طلاب اور قابلِ دید رونق رکھتا تھا اور پیروان دین کی اس پر خاص توجہ تھی بالخصوص امام محمد باقرؑ اور امام صادق ؑ کے زمانے میں اپنے عروج پر تھا اور بہت سے دانشور اور علما نے دین کے مختلف مسائل اور فروغ میں آپ دونوں بزرگوار کے حضور پرورش پائی ہے۔ آئمہ طاہرینؑ کے زمانے میں جو آئمہؑ سے احکام الہی کو بیان کرنے کے ذمہ دار تھے اور اپنے اصحاب اور خاص شاگردوں کے ذمے بھی اس ذمہ داری کو رکھا تھا فاضل، توان مند اور با فضیلت افراد جیسے زرارہ، محمد ابن مسلم، ابو بصیر، ابان ابن تغلب، مسائلِ حرام و حلال اور دین کے احکام کو لوگوں کے لیے بیان کرتے تھے اور خود آئمہ طاہرینؑ لوگوں کو ان کی طرف رجوع کرنے كا حكم دیتے تھے۔ سر انجام آئمہ طاہرینؑ کا زمانہ رفتہ رفتہ گزر گیا اور امام زمانہ عج کی غیبت کا زمانہ آگیا اور حلال و حرام کو بیان کرنا اور سماج کی زندگی کے نظام کو بیان اور واضح کرنے کی ذمہ داری جامع الشرائط فقہا (مجتہدین) پر آگئی اور فتویٰ اور تقلید کا موضوع ایک خاص صورت میں مجموعی طور پر رواج پا گیا۔
پس خلاصہ ِ جواب یہ ہوا کہ اگر کوئی شخص احکام کو مصادر سے استخراج کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا تو اُس پر مرجع جامع الشرائط کی تقلید کرنا واجب ہے۔

[1] ۔سورۃ النحل آیت ۴۳

[2] ۔ وسائل الشيعة (آل البيت) - الحر العاملي - ج ٢٧ - الصفحة ١٣١