پرائیویٹ بینکوں سے اس شرط پر قرض
لینا کہ قرض لی گئی رقم سے زیادہ ادا کیا جائے گا ، سود اور حرام ہے اور اگر کوئی
شخص اس طرح سے قرض لے تو قرض لینا صحیح ہے اور شرط باطل ہے اور اضافی رقم کا شرط
کے مطابق لینا اور ادا کرنا حرام ہے۔
سود سے بچنے کےلئے مختلف راستے بیان کئے گئے ہیں۔
سرکاری بینکوں سے قرض لینا ، سود دینے
کی شرط پر جائز نہیں ہے چونکہ یہ سود ہے
اور اس میں کسی رھن کو رکھنے یا نہ رکھنے میں کوئی فرق نہیں ہے اگر کوئی شخص اس
شرط کےساتھ سرکاری بینک سے قرض لے تو قرض اورشرط دونوں باطل ہیں ۔اس لئے کہ بینک
اپنے مال کا مالک نہیں ہے کہ قرض دینے والے کی ملکیت میں قرار دے۔ اس مشکل سے نجات
کےلئے قرض لینے والا حاکم شرع (مرجع تقلید) کی اجازت سے مطلوبہ رقم کو اس اعتبار
سے قرض لےکہ بینک کا سرمایہ مجھول المالک ہے اور اس میں تصرف کا اختیار حاکم شرع
کو ہے۔ اور یہ اجازت آقای سیستانی نے تمام مومنین کو دے دی ہے اور اتنا کافی ہے کہ
کوئی شخص بینک سے پیسہ لے لے اور لیتے وقت اپنے دل میں کہے کہ اس رقم کو حاکم شرع
کی طرف سے اپنے آپ کو قرض دیا۔ اور اس صورت میں کوئی اشکال نہیں ہے اگرچہ یہ
جانتا ہو کہ بے شک قانون کے مطابق اصل رقم کو سود کے ساتھ ادا کرنے کا پابند ہے۔
(فتویٰ بمطابق آقای سیستانی)
اصل قرض لینا حاکم شرع کی اجازت سے
مشروط نہیں ہے حتی اگر وہ سرکاری بینک سے بھی ہو اور حکم وضعی کے لحاظ سے صحیح ہے
اگر چہ وہ سودی ہی کیوں نہ ہو لیکن سودی ہونے کی صورت میں حکم تکلیفی کے لحاظ سے
اس کا لینا حرام ہے چاہے مسلمان سے لیا گیا ہو یاغیر مسلم سے ، چاہے اسلامی حکومت
سے لے یا غیر اسلامی حکومت سے ، مگر یہ کہ قرض لینا ایسے اضطرار کی حد تک پہنچ
جائے کہ جس میں حرام کا ارتکاب جائز ہوتا ہے اور حرام قرض کا لینا حاکم شرع کی
اجازت سے حلال نہیں ہوسکتا بلکہ اس سلسلے میں اس کی اجازت کا کوئی محل نہیں ہے
لیکن انسان حرام میں پڑنے سے بچنے کیلئے یہ کر سکتا ہے کہ وہ اضافی رقم دینے کا
قصد نہ کرے اگر چہ وہ یہ جانتا ہو کہ یہ اضافی رقم حتماً اس سے لے لیں گے اور قرض
لینا اگر سودی نہ ہو تو اس کے لینے میں ضرورت اور احتیاج کا ہونا لازمی نہیں ہے۔
(فتویٰ بمطابق آقای
خامنہ ای)
