آبی جانوروں (Seafood) کی کون سی قسمیں حلال گوشت ہیں؟

آبی جانوروں (Seafood) کی کون سی قسمیں حلال گوشت ہیں؟

ترجمہ و تدوین: علامہ سید شہروز زیدی



آبی جانوروں میں سے صرف چھلکے والی مچھلی، جھینگا (Prawn) اور بعض آبی پرندے حلال ہیں۔

بغیر چھلکے والی مچھلی، شاہ میگو (Lobster) و کیکڑا (Crab)، کچھوا، مینڈک حرام ہیں۔

مچھلی کے حلال ہونے کی دو شرائط ہیں:

۱۔ مچھلی کا چھلکا ہو۔

۲۔ یقین/اطمینان ہو کہ جب مچھلی کو پانی سے نکالا گیا تھا تو وہ زندہ تھی یا شکاری کے جال میں ہو اور مر گئی ہو۔

امامیہ فقہ میں مچھلیوں کا چھلکے دار (بیرونی حصے پر کھرنڈ اور کھپرے) ہونا اس کی حلالیت کا معیار ہے۔
احادیث (جو ذیل میں بیان کی گئی ہیں) میں اسی معیار کے تحت بعض مچھلیوں کو حلال گوشت اور بعض مچھلیوں کو حرام گوشت قرار دیا گیا ہے۔

فقہاء کھانے میں استعمال کے ارادے سے بغیر چھلکے والی مچھلیوں کی خرید و فروخت کرنے کو حرام اور باطل سمجھتے ہیں۔

مچھلی کے بعض حصوں کا چھلکے دار ہونا اس کی حلالیت کے لیے کافی ہے۔

جن مچھلیوں کے چھلکے کو صرف ذرہ بین سے دیکھا جاسکتا ہے ان کی حلیت کے بارے میں فقہاء کے مابین اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔ ازون‌ برون(starry sturgeon) ، فیل‌ماہی(Beluga Fish)، تاس‌ماہی(Sturgeon Fish)، شارک(Shark) اور ماہی خاویار

بعض مراجع کے مطابق مچھلی کے چھلکے بغیر ذرہ بین کے دکھائی دینا چاہیے اور عرف میں اسے چھلکا کہا جائے۔

بعض مجتہدین جیسے آیت‌ اللہ بہجت نے چھلکے کو ذرہ بین کے ذریعے دیکھے جانے کو کافی جانا ہے۔[1]

آیت‌ اللہ مکارم شیرازی نے شارک مچھلی کی حلیت کی بابت سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ اس سلسلے میں عرف یا اہل خبرہ کی تشخیص کو ان کے حلال ہونے میں کافی ہے۔[2]

بعض محققین کے مطابق مچھلی کے حلال ہونے کا دار و مدار اس کا چھلکا دار ہونا ہے چاہے اسے ذرہ بین کے ذریعے تشخیص دی جائے یا عام طریقے سے۔[3]

بغیر چھلکے کی مچھلیوں کا کھانا حرام ہونے کی یہ وجہ بتائی گئی ہے کہ اس نوعیت کی مچھلیاں بنیادی طور پر گوشت خور یا مردار کھانے والی ہوتی ہیں لہذا ان کا گوشت چھلکے کے نہ ہونے کی وجہ سے آلودہ ہوتا ہے۔

اکثر فقہاء کے فتاویٰ کے مطابق مچھلی کے انڈوں (خاویار) کے کھانے کا حکم مچھلی ہی کے تابع ہے۔ لہذا جن مچھلیوں کا کھانا حلال ہے ان کے انڈوں کا کھانا بھی حلال ہے۔[4]
مچھلی چھلکا دار ہے یا نہیں اس کا تعین کرنا مکلف کی ذمہ داری ہے، یا یہ کہ ماہرین اسے چھلکے دار کہیں۔


چھلکے دار حلال مچھلیاں یہ ہیں
:

Sardine, Pilchard, Coal Fish, Carp, Mullet, Tuna, White Tunny Fish, Salmon, Trout, Sole, Herring, Perch, Cod, Flathead, Sea Bass, Pond Loach, Pike Perch, Smelt, Graylig, Allice Shad, Catalufa Bigeeye, Tench, Barbel, Rudd, Bitterling, Rain Bleak, Stream Bleak, Bleak, Danube Roach, Sabre Carp, Zope, Gilt Head, Flounder, Brill, Aspius, Ruffe, Common Nose, Black Bass, Dase, Porgy, Roach, Zaerthe, Ide, Minnow, Chub, Mackerel, Bream, Red Porgy, Sargo

بغیر چھلکے والی حرام مچھلیاں یہ ہیں:

Basa, Calamari, Catfish, Eels, Clams, Eastern Cleaner-Clingfish, Crab, Cray Fish, Flake, Grayfish, Leather Jacket, Lobster, Marlin, Mussels, Octopus, Oyster, Snails, Snake Mackerels, Squab, Squid, Sturgeons, Swordfish.

بغیر چھلکے والی مچھلی کے حرام ہونے پر دلیل: [5]

۱۔ محمد بن يعقوب، عن عدة من أصحابنا، عن سهل بن زياد، وعن محمد بن يحيى، عن أحمد بن محمد جميعا، عن ابن محبوب، وأحمد بن محمد بن أبي نصر جميعا، عن العلا، عن محمد بن مسلم، عن أبي جعفر (عليه السلام) - في حديث - قال: قلت له: رحمك الله، إنا نؤتى بالسمك ليس له قشر، فقال: كل ما له قشر من السمك، وما ليس له قشر فلا تأكله

ترجمہ:  ۔۔۔۔۔۔میں نے امامؑ سے عرض کیا: اللہ آپ پر رحمت فرمائے، ہمارے پاس ایسی مچھلی لائی جاتی ہے جس کا چھلکا نہیں ہوتا۔ امامؑ نے فرمایا: ہر وہ مچھلی کھاؤ جس کا چھلکا ہو، اور جس کے چھلکے نہ ہو اسے نہ کھاؤ۔

 

۲۔ وعن الحسين بن محمد، عن معلى بن محمد، عن الحسن بن علي، عن حماد بن عثمان، قال: قلت لأبي عبد الله (عليه السلام): جعلت فداك، الحيتان ما يؤكل منها؟ قال: ما كان له قشر الحديث.

ورواه الشيخ باسناده عن الحسين بن سعيد، عن محمد بن يحيى، عن حماد بن عثمان مثله

ترجمہ: ۔۔۔۔۔حماد کہتے ہیں: میں نے امام صادقؑ سے عرض کیا: آپ ؑ پر قربان جاؤں، مچھلیوں میں سے کون سی کھائی جا سکتی ہے؟ فرمایا: وہ جس پر چھلکا ہو۔

 

۳۔ وعن علي بن إبراهيم، عن أبيه، عن حماد، عن حريز، عمن ذكره عنهما (عليهما السلام): أن أمير المؤمنين (عليه السلام) كان يكره الجريث، ويقول: لا تأكل من السمك الا شيئا عليه فلوس، وكره المار ما هي.

ورواه الشيخ باسناده عن الحسين بن سعيد، عن حماد بن عيسى مثله

ترجمہ:۔۔۔ امیرالمؤمنینؑ جرّیث (ایک قسم کی بغیر چھلکے والی مچھلی) کو ناپسند کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے: مچھلی میں سے صرف وہی کھاؤ جس پر چھلکے ہوں، اور مارماہی (eel) کو بھی ناپسند فرمایا۔

 

۴۔ وعنه، عن أبيه، عن عبد الله بن المغيرة، عن عبد الله بن سنان، عن أبي عبد الله (عليه السلام) قال: كان على (عليه السلام) بالكوفة يركب بغلة رسول الله (صلى الله عليه وآله)، ثم يمر بسوق الحيتان، فيقول: لا تأكلوا، ولا تبيعوا ما لم يكن له قشر من السمك

ورواه الشيخ باسناده عن الحسين بن سعيد، عن حماد، عن عبد الله ابن المغيرة، عن ابن سنان مثله
ترجمہ:۔۔۔۔۔۔امام صادقؑ سے روایت ہے کہ امیرالمؤمنینؑ کوفہ میں رسول اللہ ﷺ کی خچر پر سوار ہوتے، پھر مچھلیوں کے بازار سے گزرتے اور فرماتے: وہ مچھلی نہ کھاؤ اور نہ بیچو جس پر چھلکا نہ ہو۔

 

۵۔ وعنه، عن أبيه، عن حنان بن سدير، عن أبي عبد الله عليه السلام - في حديث قال: ما لم يكن له قشر من السمك فلا تقربه
ترجمہ:۔۔۔امام صادق ؑنے فرمایا: جس مچھلی پر چھلکا نہ ہو، اس کے قریب بھی نہ جانا۔

 

۶۔ وعنه، عن هارون بن مسلم، عن مسعدة بن صدقة، عن أبي عبد الله (عليه السلام): أن أمير المؤمنين (عليه السلام) كان يركب بغلة رسول الله (صلى الله عليه وآله)، ثم يمر بسوق الحيتان، فيقول: الا لا تأكلوا، ولا تبيعوا ما لم يكن له قشر.

ورواه الشيخ باسناده عن محمد بن يعقوب، ورواه البرقي في (المحاسن) عن هارون بن مسلم مثله

ترجمہ: امام جعفر صادقؑ سے روایت ہے کہ امیرالمؤمنینؑ رسول اللہ ﷺ کی خچر پر سوار ہوتے اور مچھلیوں کے بازار سے گزرتے، تو فرماتے: سنو! جس مچھلی کے پاس چھلکا نہ ہو، اسے نہ کھاؤ اور نہ بیچو۔

 

۷۔ محمد بن علي بن الحسين قال: قال الصادق (عليه السلام): كل من السمك ما كان له فلوس، ولا تأكل منه ما ليس له فلس. الحسن بن الفضل الطبرسي في (مكارم الأخلاق) عن أحمد بن إسحاق، قال: كتبت إلى أبي محمد (عليه السلام) اسئله عن الاسقنقور يدخل في دواء الباه، وله مخاليب وذنب، أيجوز أن يشرب؟ فقال: إذا كان لها قشور فلا بأس.

ترجمہ: امام صادقؑ نے فرمایا: مچھلی میں سے وہی کھاؤ جس کے چھلکے ہوں، اور جس کے چھلکے نہ ہو اسے نہ کھاؤ۔

حسن بن فضل طبرسی نے مکارم الأخلاق میں احمد بن اسحاق سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے امام حسن عسکریؑ کو خط لکھا اور پوچھا: اسقنقور (ایک آبی جانور جو دوائے باہ میں استعمال ہوتا ہے) کے بارے میں کیا حکم ہے؟ اس کے پنجے اور دم ہیں، کیا اسے پینا جائز ہے؟ امامؑ نے فرمایا: اگر اس کےچھلکے ہوں تو کوئی حرج نہیں۔

 

۹۔ محمد بن الحسن باسناده عن محمد بن أحمد بن يحيى، عن محمد بن موسى، (عن سهل بن محمد الطبري)، قال: كتبت إلى أبى الحسن (عليه السلام) أسأله عن سمك يقال له: الابلامي، وسمك يقال له: الطيراني، وسمك يقال له: الطمر؟ وأصحابي ينهون عن اكله، قال: فكتب: كله، لا بأس به، وكتبت بخطى

ترجمہ:۔۔۔۔"میں نے ابو الحسنؑ (امام علیہ السلام) کی خدمت میں خط لکھا، ان سے سوال کیا ایک مچھلی کے بارے میں جسے ابلامی کہا جاتا ہے، اور ایک مچھلی کے بارے میں جسے طیرانی کہا جاتا ہے، اور ایک مچھلی کے بارے میں جسے طَمر کہا جاتا ہے۔ اصحاب اس کے کھانے سے منع کرتے ہیں۔ پس آپؑ نے جواب میں تحریر فرمایا: اسے کھاؤ، اس میں کوئی حرج نہیں ہے، اور یہ خط میرے اپنے ہاتھ کی تحریر ہے۔

 

 

جری (Catfish) ، مارماہی (Eel) اور زمیر (Sturgeon) کے کھانے، بیچنے اور خریدنے کے حرام ہونے  پر دلیل:[6]
۱
۔ محمد بن يعقوب، عن عدة من أصحابنا، عن سهل بن زياد، وعن محمد بن يحيى، عن أحمد بن محمد جميعا، عن ابن محبوب وأحمد بن محمد بن أبي نصر جميعا، عن العلا، عن محمد ابن مسلم، قال: أقرأني أبو جعفر (عليه السلام) شيئا من كتاب على (عليه السلام)، فإذا فيه: أنها كم عن الجرى والزمير والمار ما هي والطافي والطحال - الحديث.

ورواه الشيخ باسناده عن الحسين بن سعيد، عن فضالة بن أيوب، عن العلا مثله
ترجمہ: محمد بن مسلم کہتے ہیں: ابو جعفر علیہ السلام نے مجھے امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی کتاب کا ایک حصہ پڑھایا، تو اس میں لکھا تھا کہ: جرّی (ایک قسم کی مچھلی)، زَمیر، مارماہی، طافی (مردہ مچھلی) اور طحال (تلی) سے روک دیا گیا ہے۔

 

۲۔ وعنهم، عن أحمد بن محمد، عن عثمان بن عيسى، عن سماعة، عن أبي عبد الله (عليه السلام)، قال: لا تأكل الجريث، ولا المارماهي، ولا طافيا، ولا طحالا، لأنه بيت الدم، ومضغة الشيطان.

ورواه الشيخ باسناده عن الحسين بن سعيد، عن عثمان بن عيسى مثله

ترجمہ: امام جعفر صادق ؑ نے فرمایا: جرّیث نہ کھاؤ، نہ مارماہی، نہ مردہ مچھلی، اور نہ ہی طحال (تلی)، کیونکہ یہ خون کا گھر ہے اور شیطان کی بوٹی ہے۔

 

۳۔  وقد تقدم حديث حبابة الوالبية، قالت: رأيت أمير المؤمنين (عليه السلام) في شرطة الخميس، ومعه درة لها سبابتان، يضرب بها بياعي الجرى والمار ما هي والزمار، ويقول لهم: يا بياعي مسوخ بني إسرائيل ، وجند بنى مروان، فقام إليه فرات بن أحنف، فقال: وما جند بنى مروان؟ قال: أقوام حلقوا اللحى، وفتلوا الشوارب، فمسخوا. الحديث.

ترجمہ: حبابة والبیہیہ کہتی ہیں: میں نے امیرالمؤمنین علیہ السلام کو شرطۃ الخمیس کے ساتھ دیکھا، اور آپ کے ہاتھ میں دو شاخوں والی ایک درہ (کوڑا) تھا، جس سے آپ جری، مارماہی اور زمّار بیچنے والوں کو مارتے تھے اور ان سے فرماتے تھے: اے بنی اسرائیل کے مسخ شدہ لوگوں کے بیچنے والو! اور اے بنی مروان کے لشکریو!

پس فرات بن احنف آپ کی خدمت میں کھڑا ہوا اور عرض کیا: یہ "بنی مروان کے لشکر" کون ہیں؟

آپؑ نے فرمایا: وہ لوگ جنہوں نے اپنی داڑھیاں منڈوا دیں اور مونچھیں مروڑیں، تو وہ مسخ کر دیے گئے۔

 

۴۔ وعن علي بن إبراهيم، عن أبيه، عن حنان بن سدير، قال: سال العلاء بن كامل أبا عبد الله (عليه السلام) - وانا حاضر - عن الجرى، فقال: وجدناه في كتاب على (عليه السلام) أشياء من السمك محرمة، فلا تقربه، ثم قال أبو عبد الله (عليه السلام): ما لم يكن له قشر من السمك فلا تقربه.

ترجمہ: علاء بن کامل نے امام جعفر صادق ؑ سے پوچھا —جری کے بارے میں، تو آپ نے فرمایا: ہم نے امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی کتاب میں مچھلیوں کی کچھ چیزیں حرام پائی ہیں، لہٰذا ان کے قریب نہ جاؤ۔ پھر امامؑ نے فرمایا: جو مچھلیاں پر (چھلکے) والی نہ ہوں، ان کے قریب بھی مت جاؤ۔

 

۵۔ وعن الحسين بن محمد، عن معلى بن محمد، عن محمد ابن علي الهمداني، عن سماعة بن مهران، عن الكلبي النسابة، قال:

سألت أبا عبد الله (عليه السلام): عن الجرى، فقال: ان الله مسخ طائفة من بني إسرائيل، فما اخذ منهم بحرا فهو الجرى والزمير والمار ما هي وما سوى ذلك، وما اخذ منهم برا فالقردة والخنازير والوبر والورك وما سوى ذلك.

ترجمہ: آپؑ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے ایک گروہ کو مسخ کیا، لہٰذا جو کچھ انہوں نے سمندر سے پکڑا وہ جری، زمیر، اور مارماہی ہیں، اور جو کچھ انہوں نے زمین سے پکڑا وہ بندر، سور، بھیڑیا اور دیگر مسخ شدہ حیوانات ہیں۔

 

۶۔ محمد بن علي بن الحسين، قال: قال الصادق (عليه السلام): لا تأكل الجرى، ولا المار ما هي، ولا الزمير، ولا الطافي، وهو الذي يموت في الماء، فيطفو على رأس الماء.

ترجمہ: امام جعفر صادق ؑ نے فرمایا: جری نہ کھاؤ، نہ مارماہی، نہ زمیر، اور نہ طافی (وہ مچھلی جو پانی میں مر جائے اور سطح پر تیرنے لگے)۔

 

۷۔ وباسناده عن أبان، عن محمد بن مسلم، عن أبي جعفر (عليه السلام)، قال: لا تأكل الجرى، ولا الطحال.

ترجمہ: امام ابو جعفر علیہ السلام نے فرمایا: جری اور طحال (تلی) نہ کھاؤ۔

 

۸۔ وباسناده عن المفضل بن عمر، عن ثابت الثمالي، عن حبابة الوالبية، قال: سمعت مولاي أمير المؤمنين (عليه السلام) يقول: إنا أهل بيت، لا نشرب المسكر، ولا نأكل الجرى، ولا نمسح على الخفين، فمن كان من شيعتنا فليقتد بنا، وليستن بسنتنا.

ترجمہ: ہم اہلِ بیت ہیں، ہم نشہ آور چیزیں نہیں پیتے، نہ جری کھاتے ہیں، اور نہ جوتوں پر مسح کرتے ہیں۔ پس جو بھی ہمارے شیعہ ہیں، اسے چاہیے کہ ہماری پیروی کرے اور ہماری سنتوں پر عمل کرے۔

 

۹۔ وفي (عيون الأخبار) بأسانيده الآتية عن الفضل بن شاذان، عن الرضا (عليه السلام) في كتابه إلى المأمون، قال: محض الاسلام شهادة ان لا إله إلا الله - إلى أن قال: - وتحريم الجرى (من السمك)، والسمك الطافي، والمار ما هي، والزمير، وكل سمك لا يكون له فلس.

ترجمہ: اور (عیون الأخبار) میں اپنی درج ذیل اسناد کے ساتھ الفضل بن شاذان سے روایت ہے کہ انہوں نے امام رضا علیہ السلام سے نقل کیا، جو آپ نے اپنے خط میں خلیفہ المأمون کو لکھا، فرمایا: خالص اسلام یہ ہے کہ گواہی دو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں — یہاں تک کہ فرمایا: اور جری (مچھلی)، طافی (وہ مچھلی جو پانی میں تیرتی ہے)، مارماہی، زمیر، اور ہر ایسی مچھلی جس پر پر (فلز) نہ ہو، حرام ہے۔

 

۱۰۔ وفي كتاب (صفات الشيعة) عن علي بن أحمد بن عبد الله، عن أبيه، عن جده (أحمد بن أبي عبد الله) ،عن أبيه، عن عمرو بن شمر، عن عبيد الله، عن الصادق (عليه السلام)، قال: من أقر بسبعة أشياء فهو مؤمن: البراءة من (الجبت، والطاغوت) ، والاقرار بالولاية، والايمان بالرجعة، والاستحلال للمتعة، وتحريم الجرى، و [ترك] المسح على الخفين.

ترجمہ: ۔۔۔ امام صادق علیہ السلام سے روایت کی کہ آپ نے فرمایا: جو سات چیزوں کو تسلیم کرے وہ مؤمن ہے: جبت اور طاغوت سے بری ہونا، ولایت کو تسلیم کرنا، رجعت پر ایمان لانا، متعة کو حلال جاننا، جری (مچھلی) کو حرام جاننا، اور خفین پر مسح نہ کرنا۔

 

۱۱۔ الطبرسي في (مكارم الأخلاق) عن الأصبغ بن نباتة، عن علي (عليه السلام)، أنه قال: لا تبيعوا الجرى، ولا المار ما هي، ولا الطافي.

ترجمہ: طبرسی نے (مکارم الأخلاق) میں الاصبغ بن نباتہ سے روایت کی کہ علی علیہ السلام نے فرمایا: جری، مارماہی، اور طافی نہ بیچو۔

 

۱۲۔  محمد بن الحسن باسناده عن الحسين بن سعيد، عن محمد بن خالد، عن أبي الجهم، عن رفاعة، عن محمد بن مسلم، قال: سألت أبا عبد الله (عليه السلام) عن الجريث؟ فقال: والله ما رأيته قط، ولكن وجدناه في كتابه علي (عليه السلام) حراما.

ترجمہ: ۔۔۔ محمد بن مسلم سے روایت کی کہ میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے جریث کے بارے میں پوچھا۔ آپ نے فرمایا: واللہ! میں نے اسے کبھی نہیں دیکھا، لیکن ہم نے اسے علی علیہ السلام کی کتاب میں حرام پایا۔

 

۱۳۔ وعنه، عن النضر بن سويد، عن عاصم، عن أبي بصير، قال: سألت أبا عبد الله (عليه السلام) عما يكره من السمك، فقال: اما في كتاب على (عليه السلام) فإنه نهى عن الجريث.

ترجمہ: ۔۔۔ ابو بصیر سے روایت کی کہ میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا کہ مچھلی میں کون سی چیز ناپسندیدہ ہے؟ آپ نے فرمایا: جو کچھ علی علیہ السلام کی کتاب میں ہے، اس میں جریث سے منع کیا گیا ہے۔

 

۱۴۔  وعنه، عن صفوان، عن منصور بن حازم، عن (سمرة، عن أبي سعيد)، قال: خرج أمير المؤمنين (عليه السلام) على بغلة رسول الله (صلى الله عليه وآله)، فخرجنا معه نمشي حتى انتهى إلى موضع أصحاب السمك، فجمعهم، ثم قال: تدرون لأي شي جمعتكم؟ قالوا: لا، فقال: لا تشتروا الجريث، ولا المار ما هي، ولا الطافي على الماء، ولا تبيعوه. ورواه البرقي (في المحاسن) عن أبيه، عن صفوان بن يحيى، عن منصور بن حازم، عن سمرة بن سعيد، قال: خرج، وذكر مثله۔

ترجمہ: ۔۔۔ بن ابی سعید سے روایت کی کہ امیرالمؤمنین علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بغلے پر سوار ہو کر باہر نکلے، اور ہم ان کے ساتھ چلتے رہے یہاں تک کہ وہ مچھلی والوں کے مقام پر پہنچے۔ پھر آپ نے انہیں جمع کیا اور فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ میں تمہیں کس لیے جمع کیا ہے؟ انہوں نے کہا: نہیں۔ آپ نے فرمایا: جریث، مارماہی، اور طافی (جو پانی پر تیرتی ہے) نہ خریدو اور نہ بیچو۔

 

۱۵۔ وعنه، عن ابن فضال، عن غير واحد من أصحابنا، عن أبي عبد الله (عليه السلام)، قال: الجرى والمار ما هي والطافي حرام في كتاب على عليه السلام

ترجمہ: امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ جری، مارماہی، اور طافی علی علیہ السلام کی کتاب میں حرام ہیں۔

 

۱۶۔  وعنه، عن ابن أبي عمير، عن حماد بن عثمان، عن الحلبي، قال: قال أبو عبد الله (عليه السلام): لا تأكل الجرى، ولا الطحال، فان رسول الله (صلى الله عليه وآله) كرهه، وقال: ان في كتاب على (عليه السلام) ينهى عن الجرى، وعن جماع من السمك

ترجمہ: امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: جری اور طحال (تلی) نہ کھاؤ، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے ناپسند فرمایا، اور فرمایا: علی علیہ السلام کی کتاب میں جری اور کچھ دیگر مچھلیوں سے منع کیا گیا ہے۔


۱۷
۔ وعنه، عن صفوان، عن ابن مسكان، عن محمد الحلبي، قال: قال أبو عبد الله (عليه السلام): لا يكره شئ من الحيتان الا الجري.
ترجمہ: امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: مچھلیوں میں صرف جری ناپسندیدہ ہے۔

ظاہر ہے کہ یہاں مراد ناپسندی (کراهت) سے ہے، یعنی سختی کے ساتھ حرام قرار دینا، اور جو مچھلیاں اس کے علاوہ حرام ہیں، ان کی حرمت اتنی سخت نہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ بیان محدودیت کے طور پر ہو، یعنی جو حرام نہیں ہیں، ان پر اطلاق کے لیے۔

 

۱۸۔  وعنه، عن فضالة، عن أبان، عن حريز، عن حكم، عن أبي عبد الله (عليه السلام): قال: لا يكره شئ من الحيتان، الا الجريث.

ترجمہ: امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: مچھلیوں میں صرف جریث ناپسندیدہ ہے۔

 

                 

جھینگا کے حلال ہونے پر دلیل: [7]

۱۔ محمد بن الحسن باسناده عن الحسين بن سعيد، عن محمد بن يحيى، عن حماد بن عثمان، قال: قلت لأبي عبد الله (عليه السلام): الحيتان ما يؤكل منها؟ فقال: ما كان له قشر، قلت: ما تقول في الكنعت؟ قال: لا بأس بأكله، قال: قلت: فإنه ليس له قشر، فقال: بلى، ولكنها حوت سيئة الخلق تحتك بكل شئ، فإذا نظرت في أصل أذنها وجدت لها قشرا.

ورواه الصدوق باسناده عن محمد بن يحيى الخثعمي مثله

محمد بن يعقوب، عن الحسين بن محمد، عن معلى بن محمد، عن الحسن بن علي، عن حماد بن عثمان مثله

ترجمہ: ۔۔۔حماد بن عثمان سے روایت کی کہ میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا: مچھلیوں میں کون سی کھائی جا سکتی ہیں؟ آپ نے فرمایا: جو مچھلی چھلکے والی ہو۔ میں نے پوچھا: کنعت (جھینگے)کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: اسے کھانے میں کوئی حرج نہیں۔ میں نے عرض کیا: اس میں چھلکا نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا: ہاں، لیکن یہ خلق میں خراب ہے جو سب چیزوں کے ساتھ چپک جاتی ہے، اگر تم اس کے کان کے اصل حصے کو دیکھو تو اس میں چھلکا پایا جائے گا۔

 

۲۔ وعن علي بن إبراهيم، عن أبيه، عن صالح بن السندي، عن يونس، قال: كتبت إلى الرضا (عليه السلام): السمك لا يكون له قشور أيؤكل؟ قال: ان من السمك ما يكون له زعارة، فيحتك بكل شئ، فتذهب قشوره، ولكن إذا اختلف طرفاه، يعنى: ذنبه ورأسه فكل.

ورواه الشيخ باسناده عن محمد بن يعقوب

ترجمہ:۔۔۔ یونس سے روایت کی کہ کہا: میں نے امام رضا علیہ السلام کو لکھا: مچھلی جس کے چھلکے نہ ہو، کیا وہ کھائی جا سکتی ہے؟

آپ نے فرمایا: مچھلیوں میں کچھ ایسی بھی ہوتی ہیں جن کے جسم میں زعارة (چھلکا یا سخت جلد) ہوتی ہے، لیکن وہ ہر چیز کے ساتھ رگڑ کھاتی ہے، جس سے ان کے چھلکے ختم ہو جاتے ہیں۔ لیکن اگر اس کے دونوں کنارے مختلف ہوں یعنی دم اور سر مختلف ہوں تو پوری مچھلی کھائی جا سکتی ہے۔

یہ بات پہلے بیان شدہ دلائل سے بھی ثابت ہو جاتی ہے۔

 

 

زھو (بغیر چھلکے والی مچھلی) کے حرام ہونے کی دلیل: [8]
۱
۔ محمد بن يعقوب، عن أبي على الأشعري، عن الحسن ابن علي، عن عمه محمد، عن سليمان بن جعفر، عن إسحاق صاحب الحيتان، قال: خرجنا بسمك نتلقى به أبا الحسن (عليه السلام)، وقد خرجنا من المدينة، وقد قدم هو من سفر له، فقال: ويحك يا فلان لعل، معك سمكا؟ فقلت: نعم يا سيدي جعلت فداك، فقال: انزلا، فقال: ويحك لعله زهو؟ قال: قلت: نعم، فأريته، فقال: اركبوا، لا حاجة لنا فيه، والزهو سمك ليس له قشر.

ورواه الشيخ باسناده عن محمد بن يعقوب
ترجمہ: ۔۔۔ ہم مچھلی لے کر گئے تاکہ اسے حضرت امام ابا الحسن علیہ السلام کو دکھائیں، اور ہم مدینہ سے نکلے ہوئے تھے جبکہ آپ سفر سے واپس آئے تھے۔ آپ نے فرمایا: افسوس! اے فلاں، شاید تمہارے پاس مچھلی ہے؟ میں نے کہا: جی ہاں، اے میرے آقا! میری جان آپ پر قربان۔ آپ نے فرمایا: اترو۔ پھر فرمایا: افسوس! شاید یہ زَهو ہے؟ میں نے کہا: جی ہاں۔ پھر میں نے آپ کو وہ مچھلی دکھائی۔ آپ نے فرمایا: سوار ہو جاؤ، ہمیں اس کی ضرورت نہیں۔ اور زَهو وہ مچھلی ہے جس پر چھلکا (قشر) نہیں ہوتا۔

یہ بات پہلے بیان شدہ دلائل سے بھی ثابت ہو جاتی ہے۔

 

ربیثا کےحرام نہ ہونے بلکہ مکروہ ہونے پر دلیل:[9]
۱۔ محمد بن يعقوب، عن علي بن إبراهيم، عن أبيه، عن ابن أبي عمير، عن هشام بن سالم، عن عمر بن حنظلة، قال: حملت الربيثا يابسة في صرة، فدخلت على أبي عبد الله (عليه السلام)، فسألته عنها، فقال: كلها، وقال: لها قشر.
ورواه الشيخ باسناده عن الحسين بن سعيد، عن محمد بن خالد، عن ابن أبي عمير
وباسناده عن أحمد بن محمد بن عيسى، عن البرقي، عن ابن أبي عمير
ورواه البرقي في (المحاسن) عن أبيه، عن ابن أبي عمير مثله
ترجمہ: ۔۔۔ عمر بن حنظلہ سے روایت کی کہ کہا: میں نے ربیثا کو خشک حالت میں ایک بوری میں رکھا، پھر میں اپنے والد امام صادق علیہ السلام کے پاس گیا اور ان سے اس کے بارے میں پوچھا۔ آپ نے فرمایا: یہ سب کھائی جا سکتی ہے، اور اس کا چھلکا ہے۔

۲۔ وعنه، عن أبيه، عن حنان بن سدير، قال: أهدى فيض ابن المختار إلى أبي عبد الله (عليه السلام) ربيثا، فأدخلها عليه - وأنا عنده - فنظر إليها، فقال: هذه لها قشر، فأكل منها ونحن نراه.

ورواه الصدوق باسناده عن حنان بن سدير مثله

ترجمہ: ۔۔۔فیض بن المختار نے ربیثا امام صادق علیہ السلام کو تحفے میں دی، اور میں ان کے پاس موجود تھا جب اسے آپ کے سامنے رکھا گیا۔ آپ نے اس کی طرف دیکھا اور فرمایا: اس کا چھلکا  ہے، پھر آپ نے اس میں سے کھایا جبکہ ہم دیکھ رہے تھے۔

 

۳۔ محمد بن الحسن باسناده عن أحمد بن محمد بن عيسى، عن محمد بن إسماعيل بن بزيع، قال: كتبت إليه. وباسناده عن الحسين بن سعيد، عن محمد بن إسماعيل قال: كتبت إلى أبي الحسن الرضا (عليه السلام): اختلف الناس على في الربيثا، فما تأمرني به فيها؟ فكتب (عليه السلام): لا بأس بها

ورواه الصدوق باسناده عن محمد بن إسماعيل بن بزيع، أنه كتب إلى الرضا (عليه السلام) وذكر مثله

ورواه في (عيون الأخبار) عن جعفر بن نعيم بن شاذان، عن محمد ابن شاذان، عن الفضل بن شاذان، عن محمد بن إسماعيل بن بزيع، عن أبي الحسن الرضا (عليه السلام)، قال: سألته، وذكر الحديث

ترجمہ: ---محمد بن اسماعیل بن بزیع سے روایت کی کہ کہا: میں نے امام ابا الحسن الرضا علیہ السلام کو لکھا: لوگ ربیثا کے بارے میں اختلاف کر رہے ہیں، آپ اس کے بارے میں مجھے کیا حکم دیتے ہیں؟ آپ نے لکھا: اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

 

۴۔ وباسناده عن محمد بن أحمد بن يحيى، عن أحمد بن الحسن، عن عمرو بن سعيد، عن مصدق بن صدقة، عن عمار بن موسى، عن أبي عبد الله (عليه السلام)، قال: سألته عن الربيثا؟ فقال: لا تأكلها، فانا لا نعرفها في السمك يا عمار. الحديث.
ترجمہ:۔۔۔عمار بن موسی سے روایت کی کہ کہا: میں نے امام صادق علیہ السلام سے ربیثا کے بارے میں پوچھا۔ آپ نے فرمایا: اسے مت کھاؤ، کیونکہ ہم اسے مچھلی کے زمرے میں نہیں جانتے، اے عمار۔

 

یہ روایت کراہت (ناپسندیدگی) پر مبنی سمجھی جاتی ہے، جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا اور آگے بھی آئے گا، جیسا کہ شیخ نے ذکر کیا ہے۔

 

۵۔ وباسناده عن محمد بن الحسن الصفار، عن محمد بن عيسى بن عبيد، بن يونس بن عبد الرحمن، عن أبي الحسن (عليه السلام)، قال: قلت له: جعلت فداك، ما تقول في أكل الأربيان؟ قال:

فقال لي: لا بأس بذلك والأربيان ضرب من السمك، قال: قلت: قد روى بعض مواليك في أكل الربيثا، قال: فقال: لا بأس به.

ترجمہ: ۔۔۔میں نے امام ابا الحسن علیہ السلام سے کہا: میری جان آپ پر قربان، آپ اربیان کھانے کے بارے میں کیا فرمائیں گے؟

آپ نے فرمایا: اس میں کوئی حرج نہیں ہے، اربیان مچھلی کی ایک قسم ہے۔

میں نے کہا: آپ نے بعض پیروکاروں سے ربیثا کھانے کے بارے میں بھی روایت سنی ہے۔

آپ نے فرمایا: اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔

 

۶۔ وباسناده عن أحمد بن محمد بن عيسى، عن بكر بن محمد ومحمد بن أبي عمير جميعا، عن الفضل بن يونس، قال: تغدى أبو الحسن (عليه السلام) عندي بمنى، ومعه محمد بن زيد، فأتينا بسكرجات وفيها الربيثا، فقال له محمد بن زيد: هذه الربيثا، قال: فأخذ لقمة، فغمسها فيه، فأكلها

ترجمہ: احمد بن محمد بن عیسیٰ نے اپنی سند کے ساتھ، بکر بن محمد اور محمد بن ابی عمیر سے روایت کی، انہوں نے الفضل بن یونس سے کہا: امام ابا الحسن علیہ السلام نے میرے گھر منی کے وقت دوپہر کا کھانا کھایا، اور ان کے ساتھ محمد بن زید بھی تھے۔ ہم پکوان لائے جن میں ربیثا موجود تھی۔ محمد بن زید نے فرمایا: "یہ ربیثا ہے۔" تو امام علیہ السلام نے ایک لقمہ لیا، اسے اُس میں ڈبویا، اور کھا لیا۔

 

۷۔ أحمد بن أبي عبد الله البرقي في (المحاسن) عن أحمد بن محمد، عن (جعفر بن محمد الأحول) ، عن رجل، عن أبي الحسن (عليه السلام)، قال: شهدته مع جماعة، فاتى بسكرجات، فمد يده إلى سكرجة فيها ربيثا، فأكل منه، فقال بعضهم: أردت أن أسألك عنها، وقد رأيتك أكلتها، فقال: لا بأس بأكلها.

ترجمہ:۔۔۔۔ امام ابا الحسن علیہ السلام سے روایت کی کہ فرمایا: میں نے آپ کو ایک جماعت کے ساتھ دیکھا، آپ کے سامنے سکَرَجات آئی، آپ نے ایک سکَرَجہ جس میں ربیثا تھی اٹھائی اور اس میں سے کھایا۔ پھر کچھ لوگوں نے کہا: "ہم آپ سے اس کے بارے میں پوچھنا چاہتے تھے، جبکہ ہم نے آپ کو اسے کھاتے دیکھا۔" تو آپ نے فرمایا: "اسے کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔"

 

۸۔ وعن أبيه، عن صفوان، عن عبد الرحمن بن الحجاج، عن علي بن حنظلة، قال سألت أبا عبد الله (عليه السلام) عن الربيثا، فقال: قد سألني عنها غير واحد واختلفوا على في صفتها، قال: فرجعت، فأمرت بها، فجعلت [في وعاء] ثم حملتها إليه، فسألته عنها، فرد على مثل الذي رد، فقلت: قد جئتك بها، فضحك، فأريتها إياه، فقال: ليس به بأس.

ترجمہ:۔۔۔ علی بن حنظلہ سے روایت کی کہ کہا: **میں نے امام ابا عبد اللہ علیہ السلام سے ربیثا کے بارے میں پوچھا۔ آپ نے فرمایا: "اس کے بارے میں کئی لوگ مجھ سے پوچھ چکے ہیں اور اس کی خصوصیت پر اختلاف ہے۔"

میں واپس گیا، اس کے لیے حکم دیا اور اسے [ایک برتن میں] رکھا، پھر اسے امام کے پاس لے گیا اور اس کے بارے میں پوچھا۔ آپ نے اسی طرح جواب دیا جو پہلے دیا تھا۔ میں نے کہا: میں یہ آپ کے پاس لے آیا ہوں۔ تو آپ ہنسے، اور میں نے اسے آپ کو دکھایا۔ آپ نے فرمایا: اسے کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

 

۹۔  وعن هارون بن مسلم، عن مسعدة بن صدقة، قال: سئل أبو عبد الله (عليه السلام) عن الربيثا، فقال: لا بأس بأكلها، ولوددت أن عندنا منها.

ورواه الحميري في قرب الإسناد عن هارون بن مسلم مثله
ترجمہ:۔۔۔۔مسعدہ بن صدقة نے کہا: امام صادق علیہ السلام سے ربیثا کے بارے میں پوچھا گیا۔ آپ نے فرمایا: اسے کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے، اور کاش ہمارے پاس بھی اس کی مقدار ہوتی۔

 

۱۰۔ وعن السياري، عن محمد بن جمهور، عن رجل، عن أبي عبد الله (عليه السلام)، أنه سأله عن الأربيان، وقال: هذا يتخذ منه شئ يقال: له الربيثا، فقال: كل، فإنه جنس من السمك، ثم قال: أما تراها تقلقل في قشرها.

أقول: وتقدم ما يدل على ذلك، في أحاديث الحصر ، وفي أحاديث السمك الذي له قشر

ترجمہ: ۔۔۔ محمد بن جمهور سے، ایک شخص سے روایت کی کہ انہوں نے امام صادق علیہ السلام سے اربیان کے بارے میں پوچھا، اور کہا: "اس سے ایک چیز تیار کی جاتی ہے جسے ربیثا کہتے ہیں۔"

آپ نے فرمایا: اسے کھاؤ، کیونکہ یہ مچھلی کی ایک قسم ہے۔ پھر فرمایا: کیا تم نہیں دیکھ رہے کہ اس کے چھلکے (قشر) میں حرکت ہے۔

 

پانی کی سطح پر مردہ تیرتی ہوئی مچھلی، وہ مچھلی جو پانی خود بہا کر باہر پھینک دے، اور وہ مچھلی جو پانی خشک ہو جانے سے مر جائے ان سب کے کھانے کی حرمت پر دلیل: [10]

۱۔ محمد بن الحسن باسناده عن الحسين بن سعيد، عن ابن أبي عمير، عن حماد بن عثمان، عن الحلبي، عن أبي عبد الله (عليه السلام) - في حديث - قال: وسألته عما يوجد من السمك طافيا على الماء أو يلقيه البحر ميتا، فقال: لا تأكله

ترجمہ: ۔۔۔الحلبی سے، امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ فرمایا: میں نے آپ سے پوچھا کہ وہ مچھلیاں جو پانی کی سطح پر تیرتی ہیں یا جو سمندر مردہ حالت میں پھینک دیتا ہے، ان کے بارے میں کیا حکم ہے؟ آپ نے فرمایا: انہیں مت کھاؤ۔

 

۲۔  وعنه، عن عمرو بن عثمان، عن الفضل بن صالح، عن زيد الشحام، قال: سئل أبو عبد الله (عليه السلام) عما يؤخذ من الحيتان طافيا على الماء، أو يلقيه البحر ميتا، آكله؟ قال: لا.

ترجمہ: زید الشحام سے روایت ہے کہ کہا: امام صادق علیہ السلام سے پوچھا گیا کہ وہ مچھلیاں جو پانی کی سطح پر تیرتی ہیں یا جو سمندر مردہ حالت میں پھینک دیتا ہے، کیا کھائی جا سکتی ہیں؟ آپ نے فرمایا: نہیں۔

 

۳۔  وعنه، عن فضالة، عن القاسم بن بريد، عن محمد بن مسلم، عن أبي جعفر (عليه السلام)، قال: لا تأكل ما نبذه الماء من الحيتان، ولا ما نضب الماء عنه

ترجمہ: امام ابو جعفر علیہ السلام سے روایت ہے کہ فرمایا: پانی جو مچھلیوں کو پھینک دے، اسے مت کھاؤ، اور جو مچھلی پانی کے خشک ہونے پر رہ جائے، اسے بھی مت کھاؤ۔

 

۴۔ محمد بن يعقوب، عن علي بن إبراهيم، عن هارون بن مسلم، عن مسعدة بن صدقة، عن أبي عبد الله (عليه السلام) - في حديث - قال: ولا يؤكل الطافي من السمك.

ورواه البرقي في (المحاسن) عن هارون بن مسلم مثله

ترجمہ: امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ فرمایا: پانی کی سطح پر تیرتی ہوئی مچھلی کو نہیں کھایا جاتا۔

 

۵۔ وعنه، عن أبيه، عن عبد الله بن المغيرة، عمن ذكره، عن أبي عبد الله (عليه السلام)، وذكر الطافي، وما يكره الناس منه، فقال: إنما الطافي من السمك المكروه هو ما تغير ريحه.

ترجمہ: ۔۔۔امام صادق علیہ السلام سے روایت کی کہ انہوں نے پانی کی سطح پر تیرتی ہوئی مچھلی اور وہ مچھلی جو لوگوں کو ناپسند ہے کا ذکر کیا، اور فرمایا: پانی کی سطح پر تیرنے والی مچھلی میں مکروہ وہ ہے جس کی بو بدل گئی ہو۔

 

شاید اس کا مقصد یہ ہے کہ بو بدلنے کو مچھلی کے پانی میں مرنے کا علم حاصل کرنے کے لیے مدنظر رکھا گیا ہے۔

 

۶۔ محمد بن علي بن الحسين باسناده عن محمد بن مسلم، عن أبي جعفر (عليه السلام)، قال: لا يؤكل ما نبذه الماء من الحيتان، وما نضب الماء عنه فذلك المتروك

ترجمہ: امام ابو جعفر علیہ السلام سے روایت ہے کہ فرمایا: پانی جو مچھلیوں کو پھینک دے، اسے نہیں کھایا جاتا، اور جو مچھلی پانی کے خشک ہونے پر رہ جائے، اسے بھی نہیں کھایا جاتا؛ یہی وہ چیز ہے جسے چھوڑ دیا گیا ہے۔

 

۷۔ علي بن جعفر في كتابه، عن أخيه (عليه السلام)، قال: سألته عما حسر عنه الماء من صيد البحر وهو ميت، أيحل أكله؟ قال: لا

ترجمہ:۔۔۔میں نے آپؑ سے پوچھا کہ سمندر کی شکار شدہ مچھلی جو پانی کے خشک ہونے پر مردہ رہ جائے، کیا اسے کھایا جا سکتا ہے؟

آپ نے فرمایا: نہیں۔

 

۸۔  قال: وسألته عن صيد البحر يحبسه، فيموت في مصيدته، قال: إذا كان محبوسا فكل، فلا بأس.

ترجمہ: میں نے آپؑ سے پوچھا کہ اگر سمندر کی شکار شدہ مچھلی قفس یا پکڑ میں رہ کر مر جائے تو کیا کھائی جا سکتی ہے؟

آپ نے فرمایا: اگر وہ قید شدہ  (جال وغیرہ میں ہو) ہو تو کھائی جا سکتی ہے، اس میں کوئی حرج نہیں۔

 

جو شخص مچھلی پائے اور یہ نہ جانتا ہو کہ وہ شرعی طور پر مذکی ہے یا نہیں، تو اسے پانی میں ڈال دے: اگر وہ اپنی پیٹھ کے بل تیرنے لگے تو وہ غیر مذکّی ہے (کھانا حلال نہیں)، اور اگر وہ اپنے پیٹ کے بل (چہرے کے بل) تیرے تو وہ مذکّی شمار ہوگی (کھانا جائز ہے)۔ اور اگر یہ بھی معلوم نہ ہو کہ یہ مچھلی ان اقسام میں سے ہے جنہیں کھایا جا سکتا ہے یا نہیں، تو پھر اس کا حکم (یعنی تحقیق و احتیاط) الگ بیان ہوا ہے۔[11]

۱۔  محمد بن علي بن الحسين، قال: قال الصادق (عليه السلام): لا تأكل الجرى - إلى أن قال -: وإن وجدت سمكا، ولم تعلم أذكى هو أو غير ذكى، وذكاته أن يخرج من الماء حيا، فخذ منه فاطرحه في الماء، فان طفا على الماء مستلقيا على ظهره فهو غير ذكى، وإن كان على وجهه فهو ذكى، وكذلك إذا وجدت لحما ولم تعلم أذكى هو أم ميتة، فألق منه قطعة على النار، فان انقبض فهو ذكى وإن استرخى على النار فهو ميتة.

ترجمہ: امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: جری (پانی میں تیرنے والی کچھ مخصوص مچھلی یا شکار) مت کھاؤ۔

آپ نے مزید فرمایا: اگر تم مچھلی پاؤ اور نہ معلوم ہو کہ یہ زندہ ہے یا مردہ، اور زندہ ہونے کی نشانی یہ ہے کہ وہ پانی سے باہر نکل کر زندہ رہے، تو اسے پکڑو اور پانی میں ڈال دو۔ اگر یہ پانی کی سطح پر پیٹھ کے بل تیرے تو یہ مردہ ہے، اور اگر چہرے کے بل ہو تو یہ زندہ ہے۔ اسی طرح، اگر تم گوشت پاؤ اور نہ معلوم ہو کہ زندہ ہے یا مردہ، تو ایک ٹکڑا آگ پر رکھو؛ اگر سکڑ جائے تو زندہ ہے، اور اگر آگ پر ڈھیلا رہے تو مردہ ہے۔

 

۲۔ قال: وروى فيمن وجد سمكا، ولم يعلم أنه مما يؤكل، أو لا، فإنه يشق (عن) أصل ذنبه، فان ضرب إلى الخضرة فهو مما لا يؤكل، وإن ضرب إلى الحمرة فهو مما يؤكل.

ترجمہ: جو شخص مچھلی پائے اور نہ جانے کہ وہ کھانے کے قابل ہے یا نہیں، تو وہ اس کے دم کے اصل حصے کو دیکھے۔ اگر وہ سبز رنگ کی طرف مارے تو یہ کھانے کے قابل نہیں، اور اگر سرخ رنگ کی طرف مارے تو یہ کھانے کے قابل ہے۔

 

اگر کوئی سانپ مچھلی کو نگل لے اور پھر اسے باہر نکال دے جبکہ وہ (مچھلی) ابھی حرکت کر رہی ہو، تو اگر اس کے چھلکے (فلس) اُتر گئے ہوں تو وہ حرام ہے، اور اگر چھلکے برقرار ہوں تو حرام نہیں۔[12]

۱۔ محمد بن يعقوب، عن محمد بن يحيى، عن محمد بن أحمد بن يحيى، عن يعقوب بن يزيد، عن أحمد بن المبارك، عن صالح ابن أعين الوشاء، عن أيوب بن أعين، عن أبي عبد الله (عليه السلام)، قال: قلت له: جعلت فداك، ما تقول: في حية ابتلعت سمكة، ثم طرحتها وهي حية تضطرب، أفآكلها؟ فقال (عليه السلام): إن كانت فلوسها قد تسلخت فلا تأكلها، وإن لم تكن تسلخت فكلها

ورواه الصدوق مرسلا نحوه

ورواه الشيخ باسناده عن محمد بن يعقوب

ترجمہ:۔۔۔میں نے امام صادقؑ سے کہا: میری جان آپ پر قربان، آپ اس بارے میں کیا فرمائیں گے کہ اگر کوئی سانپ نے مچھلی نگل لی اور پھر اسے زندہ حالت میں باہر نکال دیا، کیا اسے کھایا جا سکتا ہے؟

آپ نے فرمایا: اگر اس کی جلد (فلوس) اُتر گئی ہو تو نہ کھاؤ، اور اگر اُتر نہیں گئی ہو تو کھاؤ۔

 

کچھوے (Turtle)، کیکڑے/جھینگا نما سرطان (Crab)، مینڈک (Frog)، بھُنورا/جونک نما خنفساء (Beetle) اور سانپ (Snakes) کے کھانے کے حرام ہونے کی دلیل:[13]

۱۔ محمد بن يعقوب، عن محمد بن يحيى، عن العمركي بن علي ، عن علي بن جعفر، عن أخيه أبي الحسن الأول (عليه السلام)، قال: لا يحل أكل الجرى، ولا السلحفاة، ولا السرطان. قال: وسألته عن اللحم الذي يكون في أصداف البحر والفرات، أيؤكل؟ قال: ذلك لحم الضفادع، لا يحل أكله

ورواه الشيخ باسناده عن محمد بن يعقوب

ورواه الحميري في (قرب الإسناد) عن عبد الله بن الحسن، عن علي ابن جعفر

ورواه علي بن جعفر في كتابه، إلا أنه قال: لا يصلح أكله

ترجمہ: امام علیہ السلام نے فرمایا: جری، اور کچھوا، اور کیکڑا کھانا جائز نہیں ہے۔ آپ سے پوچھا گیا: وہ گوشت جو سمندر اور فرات کے صدفوں میں ہوتا ہے، کیا کھایا جا سکتا ہے؟ آپ نے فرمایا: وہ مینڈک کا گوشت ہے، اسے کھانا جائز نہیں ہے۔

 

۲۔ محمد بن الحسن باسناده عن محمد بن أحمد بن يحيى، عن محمد بن الحسين، عن علي بن النعمان، عن هارون بن خارجة، عن شعيب، عن عيسى بن حسان، عن أبي عبد الله (عليه السلام)، قال: كنت عنده إذ أقبلت عليه خنفساة، فقال: نحها، فإنها قشة من قشاش النار.

ترجمہ: ۔۔۔۔میں امام صادقؑ کے پاس موجود تھا جب ایک خنفساء آپ کے سامنے آیا، تو آپ نے فرمایا: اسے ہٹا دو، کیونکہ یہ آگ کے انگارے کی طرح چھوٹا اور نقصان دہ ہے۔

 

۳۔ محمد بن علي بن الحسين، قال: قال الصادق (عليه السلام): لا يؤكل من الحيات شئ.
ترجمہ: امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: سانپ کا کوئی حصہ نہیں کھایا جاتا۔

 

ودمتم في رعاية الله وحفظه
التماس دعا: سید شہروز زیدی



[1]۔ بہجت، استفتاءات، 1428ھ، ج‌4، ص376

[2] ۔ مکارم شیرازی، استفتاءات جدید، 1427ھ، ج‌1، ص286

[3] ۔ جمعی از مؤلفان، مجلہ فقہ اہل‌بیت(ع)، ج‌43، ص237

[4] ۔ علامہ حلی، تحریر الأحکام الشرعیۃ، مشہد، ج‌2، ص160؛ شہید اول، اللمعۃ الدمشقیۃ، 1410ھ، ص235

[5] ۔ باب ۸: تحريم أكل السمك الذي ليس له فلوس وبيعه، وإباحة ما له فلوس، وحكم السقنقور، وسائل الشيعة (آل البيت) - الحر العاملي - ج ٢٤

[6] ۔ باب: ۹ تحريم اكل الجرى والمار ما هي والزمير، وبيعها وشرائها، ، وسائل الشيعة (آل البيت) - الحر العاملي - ج ٢٤

[7] ۔ باب ۱۰ عدم تحريم الكنعت، وما اختلف طرفاه من السمك، الا ما استثنى. ، وسائل الشيعة (آل البيت) - الحر العاملي - ج ٢٤

[8] ۔ باب ۱۱ تحريم الزهو، وسائل الشيعة (آل البيت) - الحر العاملي - ج ٢٤

[9] ۔ باب ۱۲ عدم تحريم الربيثا، وأنه يكره ، وسائل الشيعة (آل البيت) - الحر العاملي - ج ٢٤

[10] ۔ باب ۱۳ تحريم السمك الطافي، وما يلقيه الماء ميتا، وما نضب الماء عنه، ، وسائل الشيعة (آل البيت) - الحر العاملي - ج ٢٤

[11] ۔ باب ۱۴ أن من وجد سمكا، ولم يعلم أنه ذكى أم لا طرح في الماء، فان طفا على ظهره فهو غير ذكى، وأن كان على وجهه فهو ذكى، وحكم ما لو لم يعلم أنه مما يؤكل أو لا ، وسائل الشيعة (آل البيت) - الحر العاملي - ج ٢٤

[12] ۔ باب ۱۵ أن الحية إذا ابتلعت سمكة، ثم طرحتها وهي تتحرك، فان كانت تسلخت فلوسها فهي حرام، وإلا فلا، وسائل الشيعة (آل البيت) - الحر العاملي - ج٢٤

[13] ۔ باب ۱۶ تحريم أكل السلحفاة والسرطان والضفادع والخنفساء والحيات، وسائل الشيعة (آل البيت) - الحر العاملي - ج٢٤